• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استعماری ملٹی نیشنل کمپنیاں کبھی بھی انسانیت کی بھلائی نہیں سوچ سکتیں۔ یہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو کھلے سمندر میں مچھلیوں کی خوراک تو بناسکتے ہیں لیکن فقر و فاقہ سے بلکتے کروڑوں انسانوں کو ایک لقمہ تک مفت نہیں دے سکتے۔ کسی بھی ملک میں جاکر تحقیق کرلیجیے عالمگیریت کے بہانے سے غریب ممالک کے بچے کھچے وسائل پر قبضہ جمایا جارہاہے۔ ایسی کمپنیوں نے جہاں بھی اپنی شاخ کھولی وہاںملکی پیداوار میں انتہائی کمی کردی۔ ملکوں ملکوں شاخیںقائم کرکے دولت سمیٹی اور امریکی بینکوں میں آکر جمع کرادی۔ یہ بات کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن ، کھلا پن، معاشی سدھار اور آزاد منڈی جیسے مکھوٹوں کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو بازار کی خواہشوں کے حوالے کرکے ان کے گرد سامراج کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے آج کی 200بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے 195کا تعلق سابق سامراجی ممالک سے ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیںتو یہ دنیا صرف تیس منٹ میں تباہ ہوجائے۔ اگر پانچ سو ملٹی نیشنل کمپنیز میں سے چند کمپنیاں اتحاد کرلیں تو وہ دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل پر قابض ہوسکتی ہیں۔ مثلاً پوری دنیا کے برقی نظام کی مالیت 188 ارب ڈالر ہے، تین کمپنیاں مل کر یہ سارا نظام خرید سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ڈاک کے نظام کی مالیت 113 ارب ڈالر ہے۔ پانی صاف کرنے کا نظام 58 ارب ڈالر، ریلوے کا نظام 109ارب ڈالر، دنیا کی زیر کاشت زمین 178ارب ڈالر، پوری دنیا کی صحت اور صفائی کا نظام 211ارب ڈالر، اور دنیا کی تمام بڑی شاہراہیں 186 ارب ڈالر میں خریدی جاسکتی ہیں اور دنیا کے یہ سارے اثاثے پانچ سو کمپنیوں کی فہرست میں شامل پہلی 20 کمپنیاں خرید سکتی ہیں اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اگر یہ کمپنیاں چاہیں گی تو بلب روشن ہوں گے،ڈاک کی ترسیل ہوگی، ٹرین اپنا سفر طے کرے گی، زمین پر گندم کاشت ہوگی اور سڑک پر پہیہ چلے گا اور جب یہ کمپنیاں چاہیں گی تو مریض کا علاج ہوگا۔ گویا کہ پوری دنیا ان کمپنیز کے مالکان یا حصہ دار افراد کے اشارئہ ابرو کی محتاج ہوجائے گی۔ ان کثیر القومی اداروں کی وجہ سے سرمایہ کا ارتکاز مسلسل بڑھتا جارہا ہے، اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ صرف ایک بین الاقوامی دوا ساز ادارہ اگر چاہے تو دنیا کے ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت مہیا ہوسکتی ہے۔ صرف دو ملٹی نیشنلز اگر چاہیں تو باہم مل کر دنیا کی کل آبادی کو پوری زندگی کے لئے اسپتال کے ایک کمرہ کی سہولت فراہم کرسکتی ہیں۔ اگر تین کمپنیاں یہ ارادہ کریں کہ دنیا کی چھ ارب آبادی کے لئے درمیانے درجے کےاسپتال قائم کیے جائیں تو وہ اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔ اوپری درجے کی دو ملٹی نیشنل کمپنیز ایسی ہیں اگر چاہیں تو دنیا کے ہر مریض کو بارہ بارہ گھنٹے کے لئے دو ڈاکٹر اور چار نرسیں فراہم کرسکتی ہیں۔ یاد رہے ایسا کرنے کے باوجود ان کمپنیز کے سرمائے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ بالفرض اگر پانچ بین الاقوامی دوا ساز ادارے جان بچانے والی دواؤں پر سے اپنا کنٹرول ختم کردیں تو مہلک امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں 90فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ تمام دواساز کمپنیاں ہر سال اپنی پروڈکٹ کی پروموشن کے لئے اشتہارات، سیمینارز اور ورکشاپس پر جس قدر سرمایہ خرچ کرتی ہیں، اگر یہ رقم بچا کر اسے حقیقی معنوں میں بامقصد طور پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے تین مہلک امراض کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ صرف سرجری کے آلات فروخت کرنے والی کمپنیاں چاہیں تو چار سال تک دنیا کے تمام مریضوں کے مفت آپریشن کرسکتی ہیں۔ طاقت کی دوائیں بنانے والی کمپنیاں دس سال کے عرصے تک دنیا کے تمام شیر خوار بچوں کے لئے دودھ فراہم کرسکتی ہیں۔ صرف دو کمپنیاں چاہیں تو دنیا سے ٹی بی، کینسر اور ایڈز کو جڑوں سے اْکھاڑ سکتی ہیں، اگر زرعی اجناس کے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ بنانے والی صرف دو کمپنیاں چاہیں تو 6ارب انسانوں کو دس سال تک مفت گندم فراہم کرسکتی ہیں۔ دنیا کی آدھی بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بناسکتی ہیں۔ بجلی بنانے والی آٹھ کمپنیاں ساتوں براعظم میں چار سال تک مفت بجلی فراہم کرسکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین سسٹم چلانے والی 5کمپنیاں تین سال تک چھ ارب انسانوں کو ٹرین کا مفت سفر کرواسکتی ہیں۔ دس بڑی ایئر لائنز چاہیں تو چھ ارب افراد کو پانچ سال تک فضائی سفر مفت کروا سکتی ہیں۔ ڈاک کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں اب تک اس قدر خطیر سرمایہ جمع کرچکی ہیں وہ اگلے پچاس برسوں تک مفت سروس فراہم کریں تو بھی خسارے میں نہیں رہیں گی۔ صرف ایک موبائل کمپنی کے عہدیداروں کی گاڑیاں فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ہوگی، اْس سے روانڈا، برونڈی اور ایتھوپیا کا قحط دور ہوسکتا ہے۔ دنیا کی دس بڑی کمپنیاں اپنے دفتروں میں سالانہ جتنی اسٹیشنری استعمال کرتی ہیں اس کی مالیت دنیا کے پندرہ غریب ملکوں کے تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ جاپان میں ہر سال 35 ارب ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مہمانوں کی خاطر تواضع پر خرچ کیے جاتے ہیں، یہ دنیا کی صحت کے کل بجٹ کی ایک چوتھائی رقم ہے۔ شراب بنانے والی محض چار کمپنیاں اپنے منافع سے دنیا کے تمام نشئی افراد کا علاج کرسکتی ہیں۔ صرف ایک ملٹی نیشنل کمپنی چاہے تو دنیا بھر کی بارودی سرنگیں صاف کی جاسکتی ہیں۔ صرف ایک کمپنی پوری دنیا کے معذوروں کو مصنوعی اعضاء بنا کر دے سکتی ہے۔ . ایک کمپنی اگر اپنا ایک سال کا منافع دنیا بھر میں تقسیم کردے تو ہر شخص کو ایک کار مفت فراہم ہوسکے گی۔ پاکستان میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں پکنے والے کھانے کا 40 فیصد حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال 1.3 ارب ٹن خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ یہ خوراک اگر کسی غریب تک پہنچ جائے تو شاید وہ خود کشی سے بچ جائے۔ کسی بھوکی ماں کے پاس پہنچ جائے تو شاید وہ نہر میں کودنے سے بچ جائے۔ کسی مفلس، غریب اور قلاش کے گھر پہنچ جائے تو شاید اس کی دعائیں آپ کی جنت بنانے کے لئے کافی ہیں۔ بات ہے صرف احساس کی۔جب احساس ختم ہوجائے تو انسان میں اور لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ کوئی بھی نہیں، سوائے سانس کے،لہٰذا آپ کوشش کریں کہ کھانا بالکل ضائع نہ کریں۔ایک ایک لقمے کی قدر اور حفاظت کریں۔ اپنے گھروں، دفتروں، ہوٹلوں، شادی ہالوں… کہیں پر بھی جائیں کھانا بالکل ضائع نہ ہونے دیں۔ آپ جس دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھارہے ہیں کم از کم وہاں تو بالکل ضائع نہ ہونے دیں۔ لقمے لقمے اور ذرّے ذرّے کی حفاظت کریں۔ ہمارا تجربہ ہے جو شخص رزق کی قدر کرتا ہے اللہ تعالیٰ فراخی کے دروازے اس پر کھول دیتے ہیں۔



.
تازہ ترین