• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک سعودی تعلقات کئی دہائیوں پرانے ہیں۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت یا آمر کی حکومت ہو مگر سعودی عرب سے بہترین مراسم سب کی خواہش ہوتی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے مسند اقتدار پر فائز سعودی شاہی خاندان ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں کا دوست رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو ہو یا پھر فوجی آمر ضیاالحق،وزیراعظم نوازشریف ہو یا پھر آمر حکمران پرویز مشرف۔آل سعود کی طرف سے آنے والیـ"فون کال" کو سب ایک ہی طرح سے اہمیت دیتے ہیں۔سفارتی امور کے ماہر اور ایران سے بہتر تعلقات کی بنیاد ڈالنے والے ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اسلامی دنیا میں سب سے گہر ی دوستی سعودی حکمران شاہ فیصل سے ہی تھی۔اسی طرح جب فوجی حکمران ضیاالحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو سب سے پہلے سعودی عرب سے بہتر تعلقات کا آغاز کیا۔وزیراعظم نوازشریف نے بھی اپنے پہلے دونوں ادوار میں آل سعود سے مضبوط تعلقات کو ترجیح دی۔پرویز مشرف نے جن کے کہنے پر وزیراعظم نوازشریف کو جدہ بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی وہ سعودی حکمران ہی تھے۔ہاں !رفیق تارڑ صاحب کی امریکی صدر بل کلنٹن کو دی گئی پرچی نے بھی کام دکھایا جس پر لکھا ہوا تھا کہ "Please Intervene, otherwise he will hang him"جو انہوں نے پاکستان کی حدود سے روانہ ہوکر جہاز میں پڑھی تھی مگر اصل کردار آل سعود کا ہی تھا۔
سعودی عرب سے قربت اور گہرے مراسم کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حرم کے تقدس اور روضہ رسول ؑ سے پاکستانی عوام کی گہری وابستگی ہے اور یہ تعلق آج کا نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے قبل یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔برصغیر کے مسلمان ہمیشہ سعودی حکمرانوں کے اقتدار پرمنڈلاتے خطرات کو حرم پر حملے سے تشریح دیتے ہیں۔جب سعودی عرب میں ترک حکومت کیا کرتے تھے اور خلافت عثمانیہ کا دوردورہ تھا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد سب سے مضبوط اور موثر تحریک برصغیر کے مسلمانوں نے ہی شروع کی کہ خلافت عثمانیہ کی حدود کو بحال کیا جائے۔ترک کے زیر اثر علاقوں کو واپس کیا جائے۔بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس تحریک میں مسلمان عورتوں اور بچیوں نے اپنے زیورات تک نچھاور کئے۔اس قربانی کا مقصد یہی تھا کہ سعودی حکمرانوں کی مدد کی جاسکے۔کیونکہ امت مسلمہ بالخصوص پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ سعودی حکمران تمام مقدم مقامات کے محافظ ہیں۔اس لئے ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔آج بھی اگر پاکستانی عوام سعودی حکمرانوں کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتے ہیں تو اس کی واحد وجہ حرم سے عقیدت ہے۔اس خاکسار کو سینئر سعودی وزرا،امام کعبہ سمیت متعدد سعودی شخصیا ت سے طویل نشست کاموقع ملا۔جس میں ایک بات واضح ہوئی کہ سعودی عرب جانتا ہے کہ مقدم مقامات سے عقیدت اور احترام تو دنیا بھر کے مسلمانوں میںموجود ہے مگر پاکستانی مسلمان وہ واحد ہیں جو اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔یمن کی صورتحال میں بھی آل شیخ کے سینئر وزیر مذہبی امورالشیخ صالح بند عبدالعزیز اور امام کعبہ خالد الغامدی کا انٹرویو کرنے اور طویل نشست کرنے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ بھی امام کعبہ ڈاکٹر جسٹس صالح بن محمد بن ابراہیم آل طالب سے طویل نشست اور جیو نیوز کے لئے انٹرویو کیا۔یہ انٹرویو جیو نیوز کے ناظرین جلد دیکھ سکیں گے۔مگر ان سب بالا نشستوں میں ایک بات واضح ضرور ہوئی کہ سعودی عرب کے دنیا بھر میں بے شک متعدد دوست ہیںمگر سعودی انحصار اور اعتماد صرف پاکستان پر ہی کرتے ہیںاور ماضی کے مقابلے میں جو سعودی پالیسی میں تبدیلی نظر آئی ہے۔وہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے وزرااور سینئر حکومتی عہدیداروں کے بجائے پاکستان سے بہتر روابط اور سفارتکاری کے لئے اپنے علماکا چناؤ کرنا شروع کیا ہے۔اسی لئے یمن کی صورتحال میں امام کعبہ شیخ خالد الغامدی تشریف لائے تھے اور اب امام کعبہ جسٹس ڈاکٹر صالح بن محمد نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔امام کعبہ کے حالیہ دورے کے دوران مختلف امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔لیکن ایک بات کا یہاں ذکر کرتا چلوں جس کا براہ راست تعلق پاکستان میں ایک مکتبہ فکر سے ہے۔اپنی رائے کا امام کعبہ کے سامنے اظہار کیا کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ اتحاد مسلم ممالک کے اختلافات ختم کرانے کے لئے اپناکردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی رائے ہے کہ باہمی اختلافات ختم کرانے کے لئے یہ اتحاد کام کرسکتا ہے اور یہ ثاثر غلط ہے کہ یہ اتحاد کسی بھی اسلامی ملک میں موجود حکومت کے خلاف نبر آزما ہوگا۔بلکہ یہ اتحاد ان دہشتگرد عناصر سے لڑے گا جو اسلامی ممالک میں قائم حکومتوں کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور اپنا اثرو رسوخ دیگر ممالک میں بھی پھیلانے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پوری دنیا کے لئے دہشت گردی خطرہ بن چکی ہے۔دنیا بھر میں جہاں بھی دہشتگردی ہوتی ہے تو تانے بانے کسی مسلمان ملک سے ہی ملائے جاتے ہیں۔امریکہ میں فائرنگ کا واقعہ ہو یا پھر پیرس کے تھیٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہو،لندن پارلیمنٹ حملے کی منصوبہ بندی ہو یا پھر روس کے میٹرو اسٹیشنز پر حملے۔ہر معاملے میں مسلمان ہی موردالزام ٹھہرتے ہیں۔اچھی اور خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ سے جب اتحاد و یگانگت اور دہشت گردی کے ناسور سے لڑنے کی آواز جائے گی تو پوری دنیا میں مسلم امہ کا تاثر بہتر ہوگا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک بھرپور کوشش کریں کہ سعودی عرب اور ایران کے اختلافات ختم کرا کر بڑے مقصد کے لئے متحد ہوجائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے دوست ممالک مشترکہ ہیںجو ہر سطح پر مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن اگر یہ باہمی اختلافات بڑھتے چلے گئے اور پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہا تو پھر پاکستان کے اندر اس کا شدید ردعمل آئے گا اور شاید حکومت کیلئے حالات سنبھالنا مشکل ہوجائے۔اس لئے معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کا حل تلاش کرنا سعودی عرب سمیت تمام اسلامی دنیا کے بہتر مفاد میں ہوگا۔باقی رہی سعودی عرب اور پاکستانی عوام کی آپس میں محبت۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ رشتہ ہر دن، مہینے اور ہر سال کے ساتھ مزید مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلاجائے گا مگر حکمت ہر معاملے کو پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔

.
تازہ ترین