• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی ایشیا کی فضا میں اِن دنوں سیاسی قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف بھارت اور بنگلہ دیش اپنے تمام دو طرفہ تنازعات کا حل ڈھونڈنے پر آمادہ ہیں اور دوسری طرف کلبھوشن یادیو کو سنائی جانے والی سزا، پاک بھارت امن کی راہ میں بظاہر ایک نیا چیلنج ہے ۔ سیاسی منظر نامے اور رنگ ڈھنگ تو آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش اب اُن ممالک کے لئے مثال بن کر ابھر رہا ہے جوتیز رفتار ترقی کے باوجود اندرونی خلفشار سے نبرد آزما ہیں ۔ سابقہ مشرقی پاکستان کا’ آج‘ دیکھتے ہوئے ذہن خود بخود بیتے ہوئے ’کل‘ میں چند لمحات کے لئے کھوجاتا ہے۔
ڈھاکہ ایئرپورٹ کے باہر بڑا ہجوم تھا۔ وہاں ’جوئے بنگلہ ‘ کے نعرے لگاتے لوگ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے استقبال کے لئے جمع تھے ۔ ایک رپورٹر سقو ط ڈھاکہ کا دن اپنے انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے حق میں لگنے والے نعروں کے بیچ جنرل نیازی نے ایک کھلے میدان میں اپنی پستول بھارتی جنرل کے حوالے کردی۔
یہ رپورٹر یقیناً اُس مقام سے بہت دور تھا جہاں اِس رسمی کارروائی سے کچھ دیر پہلے ڈھاکہ میں بسے ایک بہاری خاندان سے تعلق رکھنے والا نو جوان ایک سڑک پرکھڑا پاک افواج کی گزرتی ہوئی گاڑیوں کوروکنے کی کوشش کرر ہا تھا۔ آخر کار ایک گاڑی رک گئی ۔ ایک فوجی افسر نیچے اترا تو نوجوان نے غم اور غصے سے بھرے لہجے میں کہا، ’’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے ؟‘‘ اِس فوجی افسر نے کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد جواب دیا، ’’جس قوم کا نوجوان تمہارے جیسا ہو، وہ قوم ہتھیا ر کیسے ڈال سکتی ہے!‘‘
پھر یہ 1986 کی بات ہوگی جب کراچی کے ایک محلے میں کرفیوکے وقفے کے دوران کچھ لوگ بیٹھے علم سیاسیات پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔ گفتگو میں شریک ایک پینتالیس سالہ شخص نے ڈھاکہ کی اُس غمزدہ دوپہر کو یاد کرتے ہوئے کہا:’’ اُس فوجی افسر نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔‘‘ میرا خیا ل ہے کہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کوئی نوجوان اُس دن مجھ سے یہ سوال کرتاتو میرا جواب بھی یہی ہوتا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر اور محرکات پر بہت کچھ لکھا اور بیان کیا جاتا رہاہے ۔ سچ یہ ہے کہ سمجھنے والا اگر ایماندار ہو تو حقائق بہت سادہ ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیاست دان ، یحییٰ خان جیسا فوجی آمر ، روایتی طور پر نا اہل بیوروکریسی اور اس کے تحت چلنے والے اداروں سمیت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والا ہر طاقتورعنصر اس معاملے میں کسی نہ کسی سطح پر قصوروار ہے۔ المیہ یہ کہ ملک چلانے والے یہ عناصر اس سانحے سے کبھی کوئی سبق حاصل نہ کرسکے۔ حالانکہ اب دنیا بھر میں تمام ترانتشار اور تنازعات کے باوجود زبان، ثقافت، رہن سہن، سوچنے کا ڈھنگ، ماحول اور یہاں تک کہ مخالفت اور دشمنی کے انداز تک تیزی سے تبدیل ہو تے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اِس عمل کی رفتار جنوبی ایشیا کی تقدیر بدلنے کے معاملے میں انتہائی سست ہے: یاکم از کم ہر اُس معاملے میں جو کسی نہ کسی طرح پاکستا ن سے متعلق ہے۔فی الحال جمود کی اس کیفیت سے جڑے دیگر حقائق کا تذکرہ ضروری ہے۔
لگ بھگ دو برس ہونے کو آئے ہیں! گرمیوں کا موسم تھا اورشیخ حسینہ واجد اُس وقت بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں ۔ ڈھاکہ میں منعقدہ فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ میں شرکت کے دوران نریندر مودی نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے پیچھے بھارتی کردار کا واضح طورپر ذکرکیا۔ مودی جی کی جانب سے سیاسی عاقبت نا اندیشی کا یہ مظاہرہ غالبا ً شیخ حسینہ کی سحر انگیز میزبانی کا نتیجہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگراُس وقت خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہوتیں توبھارت کا کوئی وزیر اعظم ایسی بات نہ کرتا!
شیخ حسینہ کی پاکستان سے ناراضی کی بظاہر دو بڑی وجوہات ہیں۔کچھ کا تعلق پاکستان پر اِن کی موجودہ پالیسیوں سے ہے۔ باقی وجوہات شاید اِن کے اُس ماضی سے جڑی ہیں جب اِن کے والد مجیب الرحمٰن کے خلاف غداری کے الزامات لگائے جا رہے تھے ۔ اِن کا موقف ہے کہ پاکستان سے دو طرفہ تعلقات میں بہتر ی ضروری ہے لیکن پہلے حکومت پاکستان 1971میں بنگالیوں کے خلاف ظلم و ستم پر باقاعدہ معافی کا اعلان کرے ۔اگرچہ پاکستان نے اس معاملے پر باقاعدہ معافی کا اعلان نہیں کیالیکن جنرل پرویز مشرف اِن واقعات پرافسوس کا اظہار کرچکے ہیں۔اس سے قبل جنرل ضیا الحق اپنے دورہ ِ بنگلہ دیش میں کہہ چکے تھے، ’’آپ کے ہیروز ہمارے ہیرو زہیں۔‘‘ اس تناظر میں شیخ حسینہ کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مان لینا چاہئے کہ پاکستان میں 1971کے بعد بر سراقتدار آنے والا ہر منتخب یا غیر منتخب حکمران اور عوام اس سانحے پر کسی نہ کسی انداز میں افسوس کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔
دوسری سطح پر شیخ حسینہ اُن تمام حقائق سے بخوبی واقف ہیں جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنے ۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مغربی پاکستان میں اِن کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کوکس نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ وہ جانتی ہیں کہ اِس ملک پر در اصل مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کا غلبہ رہاہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اوراپنے والد کے درمیان پیدا ہونیوالے اختلافات کیسے بھول سکتی ہیں! یہی اختلافات توعملاً مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا سبب بنے تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف کارروائیاں بھی اِن کی انہی یادداشتوں سے جڑا ہوا کوئی معاملہ لگتا ہے۔ اِنکو یہ غلط فہمی بھی رہی ہے کہ پاکستان خفیہ طریقے سے ان کے سیاسی مخالفین کی فنڈنگ کرتا رہا ہے ۔
بات شروع ہوئی تھی بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تازہ ترین رابطوں کے ذکر سے! گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں شیخ حسینہ نے نریندر مودی سے ملاقات کی اور دونوں رہ نمائوں نے دوطرفہ تعاون سے متعلق لگ بھگ دو درجن معاہدوں پر دستخط کئے ۔ اس دوران محسوس کی جانے والی سب سے غیر معمولی بات پرانے تنازعات پر دونوں رہ نمائوں کا انتہائی مثبت رویہ ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم اور کچھ دیرینہ سرحدی تنازعات آج بھی حل طلب ہیں ۔اِس کے باوجودیہ تنازعات حالیہ مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بننے دئے گئے۔ لہٰذا یہ موقع ہے کہ نریندر مودی پاکستان کے لئے بھی اسی طرح اپنا دل وسیع کریں ۔ پاکستان کو بھی اب اپنی سفارتی پالیسی میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست پرپاکستان بہتر سفارت کاری کے ذریعے اپنی غیر جانبداری ثابت کر کے معاملات کو بہتر کرسکتا ہے۔
یہ سب کچھ اب اس لئے بھی ناگزیرہے کہ اِن تینوں ممالک کے عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا، حکمرانوں کی غلطیوں کو ہدف بنانے کا فن تیزی سے سیکھتے جارہے ہیں۔

.
تازہ ترین