• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور شہر کو یوں تو کئی اعزازت حاصل ہیں۔ ہر دور نے کسی نہ کسی بڑائی کا تاج اس کے ماتھے پر سجایا ہے اور اگر اس کے اعزازات کو جمع کیا جائے تو لاہور کی تاریخ سے مزین کتاب دنیا کی بہترین کتابوں میں سے ایک شمار ہو۔ اس شہر کی ظاہری اور باطنی خوبصورتی ان روحانی کرنوں کی مرہونِ منت ہے جو ہر وقت اس کا حصار کئے رہتی ہیں۔ بے شمار صوفی اور درویش اس شہر کی کشش میں دور دراز کا سفر کر کے یہاں پہنچے اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کو اپنا ٹھکانہ کر لیا۔ ایک صوفی ایسا بھی تھا جو یہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور اسی زمین میں رچ بس گیا۔ وہ ہیں شاہ حسینؒ، دنیا جنہیں مادھو لال حسین کے نام سے جانتی ہے۔ شاہ حسینؒ برصغیر کے ایک عظیم صوفی شاعر ہیں جن کی زبان پورے پنجاب کی ترجمان ہے، جن کی تصوف میں علامتیں بعد میں آنے والے صوفی شاعروں نے قبولی ہیں اور نئے معنی پہنائے ہیں، جن کی فکر کا بنیادی نکتہ ہر طرح کی ذات پات، فرقے، عقیدے اور دنیاوی عہدوں سے بغاوت پر مبنی ہے۔ سولہویں صدی میں لاہور کی سرزمین کو اپنے وجود سے نئی شناخت بخشنے والے شاہ حسینؒ نے ہر وہ کام کیا جس سے ذات کی نفی ہو اور دنیا کے بنائے ہوئے اونچ نیچ کے سماج کی بنیادیں مسمار کی جا سکیں۔ وہ خود کو ہمیشہ جولاہا، فقیر، نمانا کہتے رہے۔ ان پر یہ راز افشا ہو چکا تھا کہ اس تمام مخلوق میں ایک ہی خالق کی روح سرایت کئے ہوئے ہے، جھگڑا صرف ظاہری وجود سے جڑی ہوئی چند غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ جن لوگوں کو خدا بصیرت عطا کرتا ہے ان کے سامنے ہر شے واضح ہو جاتی ہے کیوں کہ ان کی فکر کسی ایک نقطے پر مرکوز ہو کر ہر قسم کی بے یقینی کی دھند سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے۔ شاہ حسینؒ پر بھی ہر شے واضح ہو چکی تھی اسی لئے انہوں نے مختلف درجوں میں تقسیم معاشرے کو راہِ راست پر لانے کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ کسی طرح بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک ہندو لڑکے مادھو لال کی دوستی کو عشق کے درجے تک لے جا کر عملی طور پر خدا کی وحدانیت اور انسانیت کی یکجائی کا ثبوت فراہم کیا۔ اس دور میں بھی عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ شاہ حسینؒ نے اس رویے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے عورت کی زبان میں اپنے ربّ سے کلام کیا کیوں کہ اپنی بیشتر کاوشوں میں وہ ایک عورت کی طرح اپنے حقیقی محبوب سے راز و نیاز کرتے اور اس سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ’’مندی ہاں کہ چنگی ہاں صاحب تیری بندی ہاں‘‘ اس ایک مصرعے میں شاہ حسینؒ کا پورا نظریۂ حیات پوشیدہ ہے اور اگر اسی کو ہر انسان اپنا لے تو زندگی کا حقیقی رنگ دیکھنے کے قابل ہو جائے یعنی جب انسان پوری طرح اپنے محبوب کے سامنے سرنڈر کر دیتا ہے، اپنی کسی خوبی پر ناز کرتا ہے نہ کمی کا رونا روتا ہے بلکہ اپنے محبوب سے جڑت کو اپنا فخر بنا لیتا ہے تو اس پر پوشیدہ راز ظاہر ہونے لگتے ہیں کیوں کہ اسے محبوب کی رضا کی قبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ شاہ حسینؒ اجتماعی مسرت اور اجتماعی دکھ کی بات کرنے والا صوفی شاعر ہے۔ اجتماعی دکھ انسانی روح کا خدا کی روح سے جدا ہونا ہے جس کی کسک انسانی روح ہر وقت محسوس کرتی اور تڑپتی رہتی ہے۔ یہ تڑپ کئی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس پر مجازی رنگ غالب آ جاتا ہے اور کبھی ذات کی تنہائی اسے اوڑھ لیتی ہے۔ شاہ حسینؒ اس دنیا کو کھیلنے کی جگہ اور میلہ قرار دیتے ہیں جہاں مختلف لوگ مل کر زندگی کے سکھ سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ’’آئو نی سئیو رل جھومر پائیے‘‘، رقص کرنا اور دائرے میں گھومنا بذاتِ خود ایک صوفیانہ سرگرمی ہے جس میں جسم سے زیادہ روح شریک ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ مل کر اک دائرے میں اپنے دکھ درد کو مسرت میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں شاید اسی لئے شاہ حسینؒ کی ذات کے ساتھ میلہ چراغاں کا تصور جڑ گیا۔ ایک دور تھا جب اس میلے کے موقع پر پورے لاہور میں چراغ جلائے جاتے تھے۔ چراغ جلانے کی یہ رسم ظاہری اور باطنی اندھیروں کو مٹانے کی جدوجہد سے جڑی ہوتی تھی۔ یہ ایک قول بھی تھا اور عملی اظہار بھی۔ روشنی بانٹنے کی اس رسم میں پوری کائنات شریک ہو جاتی تھی۔ اس میلے کی حدود بھی لاہور شہر سے کہیں باہر تک وسیع ہو جاتی تھیں۔ پھر رفتہ رفتہ مختلف عوامل نے ہماری دھرتی سے جڑے، ہماری ذات میں سرایت کئے ہوئے اور ہماری فکر میں براجمان ان میلوں سے دور کر کے ہماری شناخت کو مجروح کر دیا۔ ہمارے پائوں زمین کی تاثیر سے لاتعلق ہو گئے، ہم خلا میں بھٹکنے لگے، ہم نے ادھر ادھر کے رنگوں سے اپنا بدن سجانے کی کوشش کی مگر وہ ہمیں راس نہ آئے کیوں کہ وہ ہمارے ماحول، قدروں اور ہماری طرزِ زندگی سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے وجود میں پنہاں جمالیاتی اور تعمیری قوتوں کو تخریبی عناصر نے تسخیر کر لیا اور معاشرے میں نفرت کا زہر پھیلتا چلا گیا لیکن محبت اور خیر کا رستہ زیادہ دن روکا نہیں جا سکتا۔ وہ کسی نہ کسی کھڑکی سے جھانک کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ بھلے اجنبی اور مصنوعی ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے مگر اپنی جڑوں کو فراموش نہ کر سکے۔ بھلا ہو حکومت کا جس نے ملک میں ایک نئی تعمیری سوچ اور رواداری کی فضا کو ہموار کرنے کے لئے اپنے کلچر کی ترویج کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ پنجاب اس میدان میں بھی سرفہرست ہے۔ محکمہ اطلاعات و ثقافت شبانہ روز کاوشوں کے ذریعے ہر اس نکتے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے جس کے ذریعے معاشرے میں موجود ہر طبقۂ فکر کو خوش ہونے، اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے اور کلچر سے جڑت پیدا کرنے میں مدد حاصل ہو۔ بڑے عرصے بعد لاہور میں میلہ چراغاں کا دوبارہ احیاہوا تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ یہ میلہ شاہ حسینؒ کی فکر کی ترویج سے جڑا ہوا ہے۔ لاہور کے باسیوں کو پورے ملک سے آئے ہوئے دانشوروں کے خیالات سننے کا موقع ملا۔ شاہ حسینؒ کی شاعری کے نئے نئے مفاہیم سامنے آئے، شاہ حسینؒ کی شاعری کو آج کے سماج کو درپیش چیلنجز کے ساتھ جوڑ کر دیکھا گیا اور نتیجہ یہی نکلا کہ زندگی کی خوشی انسانیت کی بھلائی اور خدمت میں ہے۔ صرف اسی صورت ربّ کو راضی کیا جا سکتا ہے کہ پہلے اس کا بندہ راضی ہو جائے۔ اگر اس میں بسنے والے انسان ناخوش ہوں تو دن رات کی عبادتیں انسانوں کے خالق کو راضی نہیں کر سکتیں۔ کہتے ہیں جو کام کرتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتا ہے۔ اگر کام کا سلسلہ جاری رہے تو تصحیح کے وسیلے بنتے رہتے ہیں۔ اگر یہ سلسلے اسی طرح جاری رہے توپنجاب دوبارہ محبت کی سرزمین کہلائے گا اور یہاں پھر سے بلّھے شاہؒ جیسے آفاقی سوچ کے حامل شاعر جنم لیں گے۔

.
تازہ ترین