• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے گزشتہ کالم میں علامہ اقبالؒ کے حوالے سے چند روحانی وارداتوں کا ذکر کیا تھا جو علامہ اقبالؒ کی اکلوتی بیٹی اور نواسوں تک علامہ اقبالؒ کے خادم خاص علی بخش کے ذریعے منتقل ہوئیں۔ سوچا تھا کہ آج سیاست پر فقرے بازی کروں گا لیکن ایک قاری کے فون نے قلم کا رخ پھر اسی جانب موڑ دیا جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عطا کردہ روحانی کیفیات کے احوال پڑھ کر نہ صرف ایمان اور یقین مزید مضبوط ہوتا ہے بلکہ نظام قدرت کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایمان کے باوجود اکثر لوگوں کا یقین’’ڈھلمل‘‘یعنی ڈانواں ڈول ہی ہوتا ہے ورنہ اگر اگلے جہان، روزحساب، قبر میں سوال جواب اور جزا و سزا پر یقین کامل ہو تو انسان نہ جھوٹ بولے، نہ دھوکہ دے، نہ ملاوٹ کرے، نہ قتل و غارت کا مرتکب ہو، نہ شراب و زنا میں ملوث ہو، نہ حرام کھائے، نہ قرب شاہی کے لئے اپنا ذہین و ضمیر گروی رکھے وغیرہ وغیرہ۔سوچا جائے تو یہ روحانی تصرفات قدرت کا چھوٹا سا انعام ہوتی ہیں انسان کے اعمال اور عشق الٰہی و عشق رسولؐ کا۔ تو پھر اس سے بڑے انعام کا تصور کیجئے جو موت کے بعد کی دنیا میں عطا ہوگا؟ جب اس طرح کے تصدیق شدہ یعنی مستند حوالوں سے قدرت کے رازوں سے تھوڑا سا پردہ سرکتا ہے تو انسان پر ابدی زندگی کا راز فاش ہوتا ہے۔ ابدی زندگی صرف انہیں عطا ہوتی ہے جو دنیا سے پردہ کرجاتے ہیں ورنہ تو انسان اپنی تمام تر دولت، کروفر، شان و شوکت اور اقتدار کے ساتھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ بقا مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔مجھے زندگی میں ایک دو ایسے اولیاء کرام کی مجلس نصیب ہوئی ہے جن کی سچائی، حقانیت، فقر، عشق وغیرہ سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کا باطن ہمہ وقت منور رہتا تھا۔ ان فقیروں کو نہ اس دنیا سے رغبت تھی اور نہ وہ خوف الٰہی کے مارے فالتو بات کرتے تھے۔ یہ میرا ان سے محبت کا رشتہ تھا کہ وہ کبھی کبھار میرے کریدنے پر بعض مرحوم ہستیوں سے ملاقات کا تھوڑا ساذکر کردیتے تھے اور انہیں حضور نبی کریمﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوتی تھی۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ مجھ جیسے دنیادار کی تسکین اور دلداری کے لئے راز سے تھوڑا سا پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس لئے میں جب کبھی کسی نہایت قابل اعتماد، سرتاپا سچے اور عاشق الٰہی و رسولﷺ کی زبان سے روحانی احوال سنتا ہوں تو مجھے ان پر یقین آجاتا ہے کیونکہ یہ نیک ہستیاں ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک اور صاف ہوتی ہیں اور انہیں دنیا اور دنیاداروں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یقین رکھیے تحقیق اور چھان پھٹک میری عادت ہے اور میں شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیوں سے ہرگز متاثر نہیں ہوتا۔
میں تو ایک دنیا دار انسان ہوں، مجھے نہ روحانیت کا علم ہے نہ تصوف کا لیکن میرا یقین کسی حد تک مستحکم ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ وہ عظیم صحابی ہیں جنہیں ہجرت کے وقت مدینہ منورہ میںنبی کریم ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسا اعزاز نصیب والوں کو ہی حاصل ہوتا ہے اور آسمانوں پر طے ہوتا ہے۔ طویل عرصہ قبل مدینہ منورہ میں مجھے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کی زیارت کا موقع بھی ملا جو مسجد نبوی ؐسے چند گز کے فاصلے پر واقع تھا اور اب حرم نبویؐ کی توسیع کے بعد اس کا حصہ بن چکا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ استنبول میں دفن ہیں۔ چند برس قبل مجھے ان کے مزار اور مزار سے ملحق ابوایوب انصاریؓ مسجد میں حاضری کا کئی بار موقع ملا۔ میری کیفیت محاورے کی زبان میں خر عیسیٰ والی تھی یعنی اگر حضرت عیسیٰ کا گدھا مکہ معظمہ سے بھی ہو آئے تو گدھا ہی رہے گا۔ چند روز قبل ابو الاامتیازع س مسلم کتاب’’ادب گاہ‘‘ پڑھتے ہوئے ایک ایسے واقعہ پر نظر پڑی کہ جی چاہا آپ سے شیئر کروں۔ محترم مسلم صاحب مرحوم بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کے شیدائی تھے اور معروف شخصیت بھی تھے۔ تقریباً 96سال زندگی گزار کر کوئی دو برس قبل دبئی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ عابد و زاہد انسان تھے لیکن بات ہے اپنے اپنے نصیب کی۔ اب آپ ان سے حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری کا احوال پڑھیے اور عاشقان الٰہی و عاشقان رسول ؐ کے مقامات اور ابدی زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، اگر یہ باتیں سمجھ میں آجائیں تو اپنے آپ پر نگاہ ڈالیں۔ وہ لکھتے ہیں’’میزبان رسول ؐ حضرت ایوب انصاریؓ نے آنحضرت محمدﷺ کی یہ حدیث سن رکھی تھی کہ’’میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر کے شہر پر حملہ آور ہوگا، وہ مغفرت یافتہ ہے‘‘۔
ایوب انصاریؓ اس وعدہ مغفرت پر شوق شہادت میں عہد حضرت امیر معاویہؓ(48ہجری، 668عیسوی) میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر کے ساتھ شامل ہوگئے اور مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق اثنائے محاصرہ میں وفات پائی لیکن چونکہ نیت شہادت کی تھی اس لئے وفات میں بھی مرتبہ شہادت کی بابت کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔اس محاصرے میں شہر فتح نہ ہوسکا۔ حدیث مبارکہ کی روشنی میں آپ کی وصیت تھی کہ مجھے دشمن کی قریب ترین اور اسلامی لشکر کی آخری حدود میں دفن کیا جائے چنانچہ آپ فصیل شہر کے نیچے مدفون ہوئے۔ سلطان محمد فاتح کے دور میں آپ کا مرقد از سر نودریافت ہوا تو اسے 1485ءمیں’’مسجد ایوب انصاریؓ‘‘ کی تعمیر کا اعزاز حاصل ہوا۔بعد میں حسب ضرورت مسجد کی مرمت، تعمیر نو اور توسیع ہوتی رہی، آپؓ کے روضہ مبارک کی تعمیر بھی اسی سال احاطہ مسجد میں ہوئی۔ قبر کے تعویذ کے ارد گرد چاندی کی جالی نصب ہے۔میں چاندنی کی جالیوں کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔اپنی پستی کردار پر منفعل، لیکن میری یہ پستی بھی اس وقت بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت سے سرفراز تھی اور اس پر جتنا بھی نازاں ہوتا کم تھا، لیکن مجھے کہاں ہوش تھا۔میں اپنی پستی کے احساس میں غرقاب ہوتا جارہا تھا لیکن ادھر وہ عظمت و شوکت، وہ شان جو مجھے کشاں کشاں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ یہ بندہ کمینہ آج میزبان سید المرسلین و شہ لولاک ﷺکا مہمان تھا، آنکھوں میں ایک منظر متحرک ہوگیا۔ شرمندگی ایک طرف، میرا جی چاہا ان جالیوں کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں سمولوں۔ یہ میرے سینے کی گہرائیوں میں اس طرح پیوست ہوجائیں کہ ان میں اور میرے دل میں کوئی فرق نہ رہے۔ آنکھوں سے چشمہ انفعال جاری تھا۔ سامنے دربار رسالتؐ تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ عالم نور میں جلوہ فگن ،دعوت مجسم تھا۔ سرور کائنات ، جناب رسالت مآب میرے آقا و ماوا و ملجا ﷺ تخت پر تشریف فرما تھے اور حضرت ایوب انصاریؓ اپنی انگلی تھمائے ، ایک بچے کی طرح مجھے پیش رحمت لے جارہے تھے۔
قرب میں قوسین سے نزدیک تر
اور جلوے ہیں کہ تا حد نظر
ایک سیہ اعمال اور عادی گنہگار کی یہ خوش نصیبی!یہ بارش انوار،سحاب رحمت کی ٹھنڈی اور معطر پھوار نے مشام جاں کو سرور سے بھردیا، پھر کچھ یاد نہیں۔ نجانے کتنا وقت گزرا۔ آنکھیں کھلیں تو احساس ہوا کہ ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے اور میں گردو پیش سے بےنیاز دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہوں اور سب لوگ حیرت سے تک رہے ہیں۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی تو محافظ آہستہ آہستہ دبے پائوں مجھ تک آیااور کان میں کہا’’وقت کا خیال نہ کریں اندرونی دروازہ کھول دیتا ہوں، جی چاہے تو مرقد تک چلے جائیں اور جب تک جی چاہے اندر ٹھہریں‘‘۔
ترجمہ:’’یہ اللہ کا فصل ہے ،جسے چاہے عطا کرے اور اللہ بہت بڑے فصل والا ہے‘‘۔(الحدید57:21)
کیا یہی وہ انجانا موڑ یا سنگ میل تھا؟ کیا یہی وہ حیات بخش لمحہ تھا جو نئی زندگی کی بشارت ہوتا ہے؟ کیا میری طفلگی اور انگلی تھامنے کا استعارہ ایک نقطہ آغاز تھا؟
ترجمہ:’’پس اللہ جو ہے تو وہی ہے صاحب اختیار اور سب کام بنانے والا اور وہی زندہ کرتا ہے مردے کو اور وہی ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔(الشوریٰ24:9)
واپسی پر ٹیکسی ڈرائیور نے نجانے کس غیر معمولی جذبے کے تحت میرے غلیظ جوتے اٹھائے اور باہر نکل کر میرے پائوں کے سامنے رکھ دئیے۔ اس نے نہ صرف کرایہ لینے سے انکار کردیا بلکہ اگلے روز بھی آنے پر اصرار کیا اور فی الواقع صبح سے آکر ہوٹل کے سامنے حاضر خدمت ہوگیا۔ اب صورتحال دوسری تھی، احساس تو بیدار تھا ، لیکن شعور بدستور خواب میں تھا یا شاید ایک لطیف مخموری کیفیت طاری تھی۔ بازار میں کچھ خریداری کے لئے رک گئے، جس دکان پر جاتے ہیں، تو’’زبان یارمن ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ کے باوجود ہر شخص پوچھتا ہے۔
’’حاجی؟ ۔۔۔۔پاکستانی؟۔۔۔۔مبروک!‘‘
جب متعدد بار یہ صورت پیش آئی تو میں نے بیگم سے کہا’’مجھے تمہاری پیشانی پر کچھ نظر نہیں آتا، تمہیں میری پیشانی پر کچھ لکھا نظر آتا ہے جو ان سب کو نظر آرہا ہے!‘‘
اور میری نظر میں پاکستانی سفارتخانے کا وہ اہلکار بھی گھوم گیا جو میری طرف دیکھ کر پاسپورٹ تھامے چپکے سے اندر چلا گیا تھا اور چند ثانیوں میں ترمیم کی مہر لگوالایا تھا ۔ ظاہر ہے بیگم کا جواب بھی نفی میں تھا، لیکن جو پیش آرہی تھی اسے کون جھٹلاتا۔۔۔۔اللہ اکبر وللہ الحمد
یہ آخری شب تھی بیگم کے ٹخنے میں30سال قبل آپریشن کی وجہ سے مستقل تکلیف ہے اور ٹیڑھا پائوں پڑجائے تو چلا نہیں جاتا، استنبول کے پرانے اور درون لاہور جیسے بازاروں میں یہی دقت پیش آگئی ا ور ہوٹل پہنچتے پہنچتے ٹخنہ سوج کرکپا ہوگیا۔ یہ رونے بیٹھ گئیں کہ اب میں اپنے پائوں سے طواف اور سعی کیسے کرسکوں گی(یہاں سے عمرے کے لئے جانا تھا) یہ تو جب تک ٹھیک ہونے سے رہا۔دفعتاً جیسے کوئی پردہ اٹھ گیا اور سارے واقعات کسی تصویر کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے، میں نے کہا’’خدا کی بندی، جو اس اہتمام کے ساتھ یہاں تک لایا ہے اور جس نے یہ نشانیاں دکھلائی ہیں، اب اس سے ناامید ہوتی ہو؟ دعا کرو‘‘، اور حقیقت ہے کہ صبح تک درد یا سوجن کا نام و نشان تک نہ تھا‘‘ (بحوالہ ادب گاہ صفحات127-126)
یہ بات ہے اپنے اپنے نصیب کی ،اپنے اپنے اعمال کی ،جسے چاہے وہ عطا کرے لیکن یہ عطا یوں ہی نہیں ہوتی؟

.
تازہ ترین