• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانوں کا تابندہ مستقبل اور وزیراعظم کا شاندار کردار

پاکستان اِس اعتبار سے دنیا کے خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جس کی آبادی کا 65فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بے پایاں توانائیوں سے مالامال ہیں۔ اس بیش بہا انسانی سرمائے کی اہمیت اور قدروقیمت اس تقابلی مطالعے سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ مغربی ممالک میں بوڑھوں کی تعداد جوانوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ خود چین میں یہ احساس شدت سے پیدا ہوا ہے کہ اس کی آبادی میں جوانوں کا تناسب تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اسی احساس نے وہاں ایک بچے کے بجائے دو بچے پیدا کرنے کی حکومت نے اجازت دے دی ہے۔ اس تناظر میں جناب محمد نوازشریف نے اقتدار میں آتے ہی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جِلا دینے اور ان کی نشوونما کے لئے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا جو برگ وبار لا رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد شہبازشریف جو 2008ء سے پنجاب کے وزیراعلیٰ چلے آ رہے ہیں، انہوں نے 2012ء میں نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کے ذریعے جدید علوم و فنون کے سرچشموں تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور سائنٹیفک سوچ پروان چڑھتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کی انقلابی سوچ نے اس دائرے کو مزید وسعت دی اور اب دینی مدارس کے طلبہ میں بھی لیپ ٹاپ تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ اس حکمتِ علمی کے صحت مند اثرات برآمد ہونے لگے ہیں۔ اب مدرسوں سے خاصی بڑی تعداد میں جدید علوم سے آراستہ روشن خیال نوجوان فارغ التحصیل ہو کر معاشرے کے مفید شہری بنتے جا رہے ہیں۔ یہی نوجوان دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط حصار ثابت ہوں گے۔
دہشت گردی کی طرف زیادہ تر وہی نوجوان مائل ہوتے ہیں جو اسلام کی صحیح تعلیمات سے نابلد ہیں اور غربت و افلاس کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے انہیں روزگار فراہم کرنا اور اسلام کی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ روزگار کے مواقع انہی نوجوانوں کے لئے میسر آتے ہیں جن کے پاس کوئی ایسا ہنر ہو جس کی مقامی یا بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب پائی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے جناب ذوالفقار احمد چیمہ کو نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیو ٹیک) کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر کر کے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جناب ذوالفقار چیمہ کا تعلق پولیس سروس سے ہے۔ انہوں نے ملازمت کے دوران کمال درجے کی فرض شناسی، دیانت داری اور انصاف پسندی کا ثبوت دیا۔ پورے ملک میں ان کے لئے بے پناہ احترام پایا جاتا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے، ایک انقلاب لے آئے اور اعلیٰ روایات کا ایک انمٹ نقش ثبت کر گئے۔ انہیں نیو ٹیک کی زمام سنبھالے صرف ڈیڑھ دو سال ہوا ہے، لیکن یوں لگتا ہے جیسے ان کے ادارے نے غیر معمولی کامیابیوں کی ایک صدی پوری کر لی ہو۔ نیو ٹیک نوجوانوں کو چھ ماہ کی تربیت کے علاوہ تین ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیتا ہے۔ انہوں نے جب ذمہ داری سنبھالی، تو تربیت حاصل کرنے والے امیدواروں کی درخواستیں صرف سترہ ہزار تھیں جبکہ اب یہ تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ جولائی 2017ء سے سالانہ ایک لاکھ نوجوانوں کو تربیت دی جائے گی۔ اس طرح فنی تربیت فراہم کرنے کا بجٹ اب تقریباً چار ارب سے تجاوز کر جائے گا اور لاکھوں گھرانوں میں خوشیوں کے چراغ روشن ہوں گے۔
اتنے کم وقت میں وہ اتنی بڑی تبدیلی لانے میں کس طرح کامیاب ہوئے، یہ ایک چشم کشا اور دلربا داستان ہے۔ وزیراعظم کی مکمل حمایت کے ساتھ انہوں نے تربیت کے نظام میں اصلاحات نافذ کیں۔ نصاب عالمی معیار تک لایا جا رہا ہے اور عملی تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ ضلع، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر تربیت پانے والے طلبہ اورطالبات کے مابین مقابلے منعقد کروائے گئے اور اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم اور طالبہ کو صدرِ مملکت کے ہاتھ سے ایک لاکھ روپے انعام دینے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح ان کے اندر زبردست اعتماد پیدا ہوا اَور والدین فنی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے کامیاب ہونے والے طلبہ اور طالبات کو ٹول کٹس دینے کی تقریبات مختلف صوبوں کے گورنر ہاؤس میں منعقد کی ہیں جن سے معاشرے میں ان کی عزت و احترام اور قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تربیت کے عمل میں صنعت کاروں کو بھی شامل کیا ہے اور ان سے اس موضوع پر مذاکرات چل رہے ہیں کہ وہ اپنی اپنی صنعتوں میں عالمی معیار کے تربیتی ادارے قائم کریں گے اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضمانت دیں گے۔ چیمہ صاحب کی ان حقیقت پسندانہ اور قائدانہ سرگرمیوں سے انسانی وسائل کی ترقی میں قابلِ قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کا ایک ایسا سرمایہ ہے جو تیل کے چشموں سے زیادہ بیش قیمت ہے۔
میں گیارہ اپریل کی شام ٹول کٹس تقسیم کرنے کی تقریب میں شرکت کے لئے گورنر ہاؤس پہنچا، تو وسیع و عریض لان میں خیمے نصب تھے اور اسٹیج پر عالی مرتبت گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ، جناب ذوالفقار چیمہ، جناب مجیب الرحمٰن شامی اور چیمبر آف کامرس کے صدر جناب عبدالباسط جلوہ افروز تھے۔ مجھے بھی اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ نہایت اچھی تقریریں ہوئیں اور نہایت قابلِ عمل تجاویز سامنے آئیں، مگر سب سے زیادہ روح پرور وہ منظر تھا جب نیو ٹیک کے تربیت یافتہ طلبہ اور طالبات اپنی خوش بختی اور کامیابی کی داستانیں بڑے سادہ اور بے ساختہ انداز میں بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والدین غریب، کنبہ بڑا اَور روزگار کے مواقع ناپید تھے، لیکن اب ہم ہنر حاصل کرنے کے بعد ماہانہ ساٹھ ستر ہزار کما کر خاندان کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی الیکٹریشن تھا اورکوئی پلمبر اور کوئی لڑکی بیوٹی پارلر میں کام کر رہی تھی۔ جناب گورنر کے ہاتھ سے ٹول کٹس وصول کرتے ہوئے ان کے چہرے گلاب کی طرح کِھلے ہوئے تھے اور سرِشام خوشیوں کے چراغ جل اُٹھے تھے۔ ہاتھ سے کام کرنے والوں ہنرمندوں کی راہ میں آنکھیں بچھائی جا رہی تھیں۔ میں نے سوچا کاش! ہمارے معاشرے میں محنت کی عظمت کا شعور عام ہو جائے جس طرح تمام ترقی یافتہ ممالک کے باسیوں میں رچا بسا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں ہندو تہذیب کے زیرِ اثر ہاتھ سے کام کرنے والوں کو کمّی سمجھا جاتا رہا ہے جبکہ محنت کو عزت و وقار کا مقام دے کر بیشتر ممالک نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔
میں جب گورنر ہاؤس سے واپس آ رہا تھا تو میرے کانوں میں اپنے انتہائی عزیز اور قابل فخر دوست جناب احسن اقبال کے الفاظ گونج رہے تھے جو انہوں نے فروری میں پائنا کے زیرِ اہتمام سیمینار میں اپنی صدارتی تقریر میں ادا کیے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ علم کی راہداری تعمیر کر رہا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ ہر سال دس ہزار طلبہ اور طالبات امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کرنے جائیں گے اور اس طرح ایک عظیم علمی انقلاب کی راہ ہموار ہو گی اور ہمارے نوجوان قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جناب وزیراعظم نے یہ معاہدہ 2016ء کے امریکی دورے میں کیا تھا جو اپنے نوجوانوں کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کے ارتقا کو اوّلین اہمیت دیتے ہیں۔ سی پیک بھی انہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے جس کی تعمیر میں نوجوان کلیدی کردار ادا کریں گے۔ یہ تمام باتیں سوچتے ہوئے میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا اور بے اختیار میرے دل سے جناب وزیراعظم کے لئے دعا نکلی تھی۔

.
تازہ ترین