• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے فیصلے میں اتنی دیر کیو ں ہورہی ہے، میں بتاتا ہوں۔ میرے لڑکپن کے دن تھے کہ میرے ایک بڑے بھائی شدیدبیمار ہوئے۔ انہیں ایسا بخار ہوا جو کسی حال نہیں اترتا تھا۔ میرے والد نے علاقے کے سرکردہ ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بٹھایا جس نے بھائی کے معائنے کے بعد آپس میں صلاح مشورے کئے۔ وہ بے اثر ثابت ہوئے، آخر والد صاحب نے سہارنپور سے اپنے ایک پرانے دوست اور مشہور حکیم صاحب کو بلایا، انہوں نے دیر تک مریض کا معائنہ کیا اور نبض کی چال کا بڑے غور سے مشاہدہ کیا۔ اب مرحلہ تھا تشخیص کااور تجویز کا،یعنی نسخہ لکھنے کا۔ سارے گھر والے ان کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے اور یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے۔ حکیم صاحب نے یہ کیا کہ وہ نسخے لکھتے جاتے تھے اور ان پر استخارہ دیکھتے جاتے تھے۔ جن نسخوں پر استخارہ منع آیا انہیں قطع کردیا اور جو نسخے قبول ہوئے وہ ایک طرف رکھتے گئے۔ آخر تشخیص مکمل ہوئی۔ حکیم صاحب نے وہ پانچ یا چھ نسخے والد صاحب کے حوالے کئے جو ہم چھوٹے بھائیوں کودئیے گئے کہ پہاڑی بازار جاکر کسی بڑے عطار کے ہاں نسخے بندھوا لیں۔ ذرا دیر میں وہ ڈھیر ساری پڑیاں آگئیں، کچھ ابالی گئیں یا پیسی او رکوٹی گئیں، یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن بھائی کا علاج فی الفور شروع ہوگیا۔ عرصے بعد انہوں نے رات آرام سے گزاری اور اگلی صبح سے ان کی طبیعت بحال ہونے لگی۔
بس مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مملکت پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی خصوصی بنچ کے پانچ جج حضرات بالکل وہی حکیم صاحب جیسا عمل کر رہے ہیں۔ میری مراد یہ نہیں کہ وہ بار بار اپنے فیصلے لکھ کر ان پر استخارے دیکھ رہے ہوں گے بلکہ میرا خیال ہے اور پختہ خیال ہے کہ وہ ہربار کوئی اہم فیصلہ کرنے کے بعد اس بڑے سوال پر سوچ بچار کررہے ہوں گے کہ اگر اسی فیصلے کو حتمی قرار دے دیا جائے تو ملک کی صورت حال پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ لگتا ہے کہ نسخے لکھے جارہے ہیں اور ایک طرف کو دھرے جا رہے ہیں، کچھ منظور، کچھ کم منظور اور چند نامنظور۔
میں عدالتی نظام کی الف بے سے بھی واقف نہیںلیکن اتنا قیاس کرسکتا ہوں کہ آخر ی فیصلے تک پہنچنے میں جتنی تاخیر کی جائے گی، احاطہء عدالت کے باہر ملک کی سیاست، معیشت، نظم و نسق، اور وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں، لا اینڈ آرڈراور اس سے بھی کہیں بڑھ کر مشرقی اور مغربی سرحدوں کی صورتِ حال اپنے پینترے بدلتی رہے گی۔ کبھی دھماکے ہوں گے، کبھی مسلح جھڑپیں چھڑیں گی، کبھی اسٹاک مارکیٹ لڑکھڑائے گی، کبھی سرمایہ کار منہ موڑ لیں گے اور آخر میں ایک اور غضب ہوگا، کبھی سرحدوں پر بھیانک سیاہ بدلیاں منڈلانے لگیں گی۔ تو کیا جج حضرات حالات کی نبض کی چال کا بار بار معائنہ کر کے اپنے نسخوں میں ردو بدل کرتے رہیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ یہ سننے میں آئے کہ حالات بہت سنگین ہو گئے ہیں۔ پڑوسن وزیر خارجہ نے اعلان کردیا ہے کہ کلبھوشن یادیو اپنے ماتا پتا کا نہیں، بھارت ماتا کا بیٹا ہے۔ اگر اسے کچھ ہوا تو پھرپاکستان کی خیر نہیں، اور یہ کہ کل بھوشن کو بچانے کے لئے ہم جس حد تک چاہیں گے جائیں گے۔ اگر کمرہ ء عدالت سے باہر ایسے نعرے بلند ہوئے تو پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہیں ہو جائے گا؟۔ اور اگر خطرہ لاحق ہوا تو کیا مقدمے کے آخری، قطعی او رحتمی فیصلے کے بارے میں اپنے سارے رویّے کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ سوچنا ہوگا۔ کیا کہیں سے ایسا انداز فکر سامنے آنا ممکن ہو سکتا ہے کہ پوری فکر ہی ڈگمگا جائےاور آخر ایک ایسی چِٹ دے دی جائے جس پر کچھ نہ لکھا ہو؟۔
ایک بات ظاہر ہے اور فطری بھی ہے کہ منصف جب کوئی فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ خارجی عوامل، وہ ارد گرد کے حالات اس کے ذہن پر اثرا نداز ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں برطانیہ کے اس عدالتی نظام کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے جسے یہاں جیوری سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس میں قرعہ کے ذریعے دس شہریوں کو چن لیا جاتا ہے جو کمرہ ء عدالت میں بیٹھ کر مقدمے کی پوری کارروائی سنتے ہیں۔ سماعت مکمل ہو جانے پر ان دس افراد کو ایک الگ کمرے میں بٹھادیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ پورے قصے پر غور اور بحث کر نے کے بعد صر ف اتنابتائیں کہ ان کے خیال میں ملزم نے جرم کیا ہے یا نہیں؟یہاں وہ دلچسپ بات جس کے لئے میں نے یہ تمہیدباندھی ہے۔ جیوری کے ان دس افراد کو چاہے ایک دن لگے یا دس دن لگیں، باہر نکل کر کسی سے بات کرنے، مشورہ کرنے، اخبار پڑھنے، ریڈیو سننے یہاں تک کہ ٹیلی وژن دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔عدالت نہیں چاہتی کہ جیوری کے فیصلے پر کوئی بھی غیر متعلق شخص یا ریڈیو ٹی وی وغیرہ اثر اندازہو۔آخر میں کمرہ ء عدالت میں جیوری کے لیڈر سے کہا جاتا ہے کہ وہ پوری ٹیم کا فیصلہ سنائے اور وہ بھی ایک لفظ میں مجرم یا نا مجرم۔وہ فیصلہ سب کو قبول ہوتا ہے۔
آخر میں امریکہ کے اس مشہور مقدمے کی بات جس میں فٹ بال کے مشہور اور مقبول عام سیاہ فام کھلاڑی او جے سمپسن پر اپنی بیوی کے قتل کا الزام تھا۔جیوری کے ارکان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو پہلے سے نہ جانتے ہوں۔ اب مشکل یہ تھی کہ او جے سمپسن سے ملک کا بچّہ بچّہ واقف تھا۔ہزار دقّت کے بعد ایسے دس افراد تلاش کئے گئے جو سمپسن کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ وہ سارے کے سارے سیاہ فام نکلے اور آخری غضب یہ ہوا کہ ان سب نے او جے سمپسن کو بے قصور قرار دے دیا۔ عدالت نے اسے بری کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسے کسی دوسرے مقدمے میں سزا ہو گئی لیکن ایک عجب بات ہوئی۔
دنیا نے اسے اپنی بیوی کا قاتل مانا۔ یہاں تک کہ وہ بعد میں ایک لیکچر دینے کے لئے برطانیہ کی ایک بڑی یونی ورسٹی میں آیا۔ لڑکو ں اور لڑکیوں نے اسے سننے سے انکار کردیا۔ اسے واپس جانا پڑا۔

.
تازہ ترین