• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت بہادر تھا، نڈر تھا، گورنر تھا، اسے پکڑا گیا، گرفتار کرکے لایا گیا اور پھر مسجد نبویؐ میں ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، نبی پاک ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ستون کے ساتھ جس شخص کو باندھا گیا ہے اس کا ’’چہرہ‘‘ خوبصورت ہے، قد لمبا اور جسم توانا ہے، اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ بھرا ہوا سینہ ہے، اٹھی ہوئی نگاہیں، شان و شوکت اور تمکنت، گویا حکمرانی کے سارے جلوے اس میں تھے۔ رسول اکرمﷺ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا، آپ ﷺ آگے بڑھے اور فرمایا’’ثمامہ کیسے ہو؟‘‘
ثمامہ بولا’’گرفتار کرکے پوچھتے ہو، کیسا ہوں؟‘‘ ، آپؐ نے فرمایا’’ثمامہ! کوئی تکلیف پہنچی ہے؟‘‘ ثمامہ ترش لہجے میں بولا’’نہ آپ تکلیف کی کوئی پرواہ ہے،نہ آپ راحت کی ضرورت ‘‘رسول پاک ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کی طرف دیکھا۔ انہیں مخاطب کرکے فرمایا’’بڑے تیکھے مزاج کا آدمی ہے، اس کو دکھ تو نہیں پہنچایا؟‘‘ صحابہؓ عرض کرنے لگے’’نہیںآقا ﷺ ، گرفتار ہی کیا ہے، دکھ نہیں پہنچایا، کوئی تکلیف نہیں دی‘‘۔ یہ سن کر پیکر حسن و جمال حضرت محمدﷺ فرمانے لگے’’ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو سہی‘‘ ثمامہ بولا’’کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہیں، نہیں دیکھتا میں، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلا لیا جائے گا‘‘ثمامہ کے لہجے کی اس کڑواہٹ کو دیکھ کر جبرائیل ؑ بھی غیظ و غضب میں آگئے ہوں گے۔ یہ لہجہ دیکھ کر حضرت عمر فاروق ؓ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی۔خود کو اہل بیت ؓ کا غلام کہنے والے عمر فاروقؓ کے ہاتھ تلوار کی میان پر تڑپنے لگے کہ سرکار دو عالمﷺ کا ایک اشارہ ہو تو میں اس کی گردن تن سے جدا کرکے، اپنے آقا ؐ کے قدموں میں رکھ دوں۔ اس تلخی اور کڑواہٹ کے باوجود رحمۃللعالمین ﷺ کے چہرے پرمسکراہٹ رہی، فرمانے لگے’’ثمامہ! جتنا غصہ ہے نکال لو لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھو‘‘ جواباًثمامہ گستاخی پر اتر آیا، کہنے لگا ’’کیا دیکھوں تمہارا چہرہ،(نعوذ باللہ) تم سے بدصورت کوئی نہیں‘‘ ۔ثمامہ نے یہ جملے اس ہستی کے بارے میں کہے جس کے حسن کی مثال کوئی نہیں۔ رب کائنات نے سب جہان اس کے لئے بنائے۔ اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کا، ان کے لئے دعا کرنے کا سلیقہ دنیا کو محمد ﷺ ہی نے سکھایا۔ ثمامہ کی گستاخی پررحمت سب جہاں فرمانے لگے’’ثمامہ ! کوئی بات نہیں، تم میری طرف نگاہ تو ڈالو‘‘ ثمامہ بولا’’ میں نے روم و یونان اور ایران و مصر کی ہستیاں دیکھی ہیں، میں تمہیں کیا دیکھوں، تمہاری ہستی(نعوذ باللہ) کائنات کی سب سے بدصورت ہستی ہے، تمہیں کیا دیکھوں‘‘۔آپؐ نے گرفتار شخص کے جواب میں فرمایا ’’کوئی بات نہیں، دوسرے دن بھی ثمامہ کے وہی جواب تھے، تیسرے دن پاک نبی ﷺ آئے اور فرمایا’’ثمامہ ! ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لو‘‘ ثمامہ بوالا’’نہیں دیکھتا، اب تو بالکل نہیں دیکھتا، جو کرنا ہے کرلو‘‘ آج تیسرا دن تھا، آج ثمامہ کا فیصلہ ہونا تھا، سب منتظر تھے کہ دیکھیں آج رحمت کی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے، ثمامہ کو گستاخی کی کیا سزا ملتی ہے، لوگوں کا خیال تھا کہ اب حکم ہوگا کہ اس کی گردن اڑادی جائے مگر پھر آسمان کی آنکھ نے دیکھا، مسجد نبوی ؐ کے درو دیوار گواہ ہیں، وہ ستون بھی گواہ ہے جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا کہ جب سزا سنانے کا وقت آیا تو ہمیشہ مسکراتے چہرے کے مالک نبی کریمؐ نے حکم فرمایا’’ثمامہ! ہم نے تجھے رہا کیا، جائو چلے جائو، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے، ہم نے تجھے چھوڑ دیا۔ ثمامہ! تو بڑا آدمی ہے، بڑے ملک کا حکمران ہے، تو نہیں دیکھتا، ہم تجھے کیا کہیں‘‘ یہ سزا سنا کر آپؐ نے اپنے صحابہؓ (جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن اتارنے کے لئے تیار تھیں) سے فرمایا ’’ثمامہ بڑا آدمی ہے، عزت کے ساتھ لے جا کر، اس کو مدینے سے رخصت کرو‘‘۔ بندھے ہوئے ثمامہ کو کھول دیا گیا، اسے عزت کے ساتھ صحابہؓ رخصت کرنے جارہے تھے، مدینے سے چلا تھا کہ ثمامہ کے دل میں خیال آیا کہ میں نے بڑے بڑے حکمران دیکھے ہیں، جرنیل بھی دیکھے ہیں مگر اتنے حوصلے والا کبھی نہیں دیکھا، اب جب رہائی مل چکی ہے تو اس کا’’چہرہ‘‘ دیکھ تو لوں،اتنے بڑے حوصلے اور دل والے کا’’چہرہ‘‘ دیکھ تو لوں، وہ کیسا ہے؟ ؎
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
ثمامہ نے جونہی دیکھا تو سرپٹ بھاگا، وہ بھاگتا ہوا واپس لوٹ آیا اور پھر کہنے لگا’’قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے مگر دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، جتنی رفتار سے گیا تھا دوگنی رفتار سے واپس آیا ہوں‘‘ جب ثمامہ واپس آیا تو نبی پاک ﷺ صحن مسجد میں صحابہؓ کے ساتھ زمین پر بیٹھے تھے، ثمامہ کو سامنے کھڑا دیکھ کر محمدﷺ نے فرمایا’’ثمامہ! ہم نے تجھے چھوڑ دیا تھا، پھر آگئے ہو؟‘‘ ۔ ثمامہ بولا’’ مجھ کو اپنا بنا کر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے، چھوڑا تب تھا جب آپ کا ’’چہرہ‘‘ نہیں دیکھا تھا، اب آپ کا ’’چہرہ‘‘ دیکھ لیا ہے، اب زندگی بھر آپ کا غلام بن گیا ہوں‘‘۔ ثمامہ نے کلمہ پڑھا، مسلمان ہوگیا ا ور پھر حضرت ثمامہؓ نے زندگی رسول اکرمﷺ کی غلامی میں گزاردی، اکڑے ہوئے انسان میں عاجزی آگئی۔
انسان کو عاجز ہی رہنا چاہئے، وہ تو اس جہان میں ایک مسافر کی طرح ہے، بقول حضرت علیؓ ’’جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے، ا کڑے ہوئے تو مردے ہیں‘‘
پیر کی شام جب سورج رات کے آنگن میں اتر رہا تھا، اسلام آباد کے ایمبیسی روڈ پر ایک سرکاری گاڑی نے میری گاڑی کو ٹکر ماری، عین اسی جگہ، جہاں میں بیٹھتا ہوں، ٹکر میں شک نہیں مگر خدائے لم یزل نے اس غلام اہل بیتؓ کو محفوظ رکھا۔ آغاز میں گاڑی میں سوار اہلکار اکڑے رہے، پھر نادم ہوئے، معافی کے طلبگار ہوئے تو اس خاکسار نے عرض کیا کہ میں محمد ﷺکے گھرانے کا غلام ہوں، معاف کرنا میں نے وہیں سے سیکھا ہے اور سورج ڈھلنے کے بعد تو ویسے بھی تیرہ رجب شروع ہوگیا ہے، یہ دن حضرت علیؓ کا یوم پیدائش ہے، انہوں نے تو اپنے قاتل کو شربت پیش کیا تھا، میں آپ کو نیاز علیؓ کھلا رہا ہوں، جائو تم خوش رہو، آباد رہو۔
چند روز پیشتر زندگی اور موت کے فلسفے پر سارا رستہ سوچتا رہا، غنڈی، میانوالی گیا تھا کہ ماسٹر عالم خان کی نیک سیرت ا ہلیہ اس جہاں سے کوچ کرگئی تھیں۔ میانوالی کے مین چوک پر مجھے اور پیر صفدر حسین شاہ کو برادرم امان اللہ خان نے خوش آمدید کہا پھر تری خیل سے ہوتے ہوئے غنڈی پہنچے، تری خیل میں ارسلان خان اور شہزاد خان کی یاد آئی۔ غنڈی میں ماسٹر عالم خان کے صاحبزادے علامہ مسعود عالم خان الازہری اور اسرار خان موجود تھے، دیر تک باتیں ہوئیں، فاتحہ خوانی کے بعد دونوں جہاں کی گفتگو ہوتی رہی، لوٹتے وقت سارا رستہ زندگی اور موت پر سوچتا رہا کہ آخر زندگی یہی تو ہے کہ جیسے ایک مسافر دم بھر کے لئے کسی گھنے درخت کے نیچے ذرا سا آرام کرلے۔
میرے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد جس جس نے محبت کا اظہار کیا، ان تمام اعلیٰ انسانوں کا شکریہ، جو نہ کرسکے خدا انہیں خوش رکھے۔ ویسے اس واقعہ سے ایک روز قبل برادر بزرگ بریگیڈیر(ر) اختر نواز جنجوعہ کہنے لگے’’تم بہت سخت لکھتے ہو، حق لکھنا مشکل کام ہے‘‘، پھر اس صوفی منش نے رب کائنات کے سامنے میری زندگی کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے، ان کی دعائیں مجھے اگلے روز بہت کام ا ٓئیں، رخشندہ نوید کا شعر یاد آگیا ہے کہ؎
ہزار شام غریباں کی بے کسی ہوگی
مگر دلوں میں رخ مہتاب زندہ رہا

.
تازہ ترین