ٹریفک کے حادثات اس وقت سے رونما ہو رہے ہیں جب سے ٹریفک وجود میں آیا ہے۔ دوسرے ممالک میں تو اس کی وجوہات کچھ اور ہوں گی لیکن ہمارے ہاں اس کےاسباب قدرے مختلف ہیں مثلاً ایک سبب تو یہ ہے کہ حادثے کے لئے بڑی محنت سے کوئی نہ کوئی سبب تلاش کیا جاتا ہے یا جیسے درویش کو پتا نہیں ہوتا لیکن رزق کہیں نہ کہیں سے آ جاتا ہے اسی طرح حادثے سے دو چار ہونے کے لئے خود کچھ نہیں کرنا پڑتا بلکہ حادثہ خود پیچھا کرتا ہے۔ ایک شریف آدھ اچھے موڈ میں اگر فٹ پاتھ پر بھی چل رہا ہو تو حادثہ کسی بغیر بریکوں والی ویگن کی صورت میں اسے فٹ پاتھ پر بھی آ دبوچتا ہے۔ بسا اوقات ’’حادثہ‘‘ ٹریفک پولیس سے آمنا سامنا ہونے کا بھی نا م ہے۔ یہ حادثہ قدرے مہنگا پڑتا ہے۔
میں نے ٹریفک کے حادثات کی وجوہات پر غور کیا تو اس کی تین وجوہات دریافت ہوئیں جن میں سے بیشتر مثبت تھیں، مثلاً ایک وجہ ہمارے عوام کا اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا ہے، مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ احمد ندیم قاسم، ڈاکٹر سلیم اختر اور میں سرگودھا سے ایک تقریب میں شمولیت کے بعد لاہور آ رہے تھے میں اگلی نشست پر بیٹھا تھا اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے دو خونخوار قسم کی بسیں ایک دوسرے سے ریس لگائی ہوئی شانہ بشانہ چلی آ رہی ہیں اور ہمارا ڈرائیور بھی سیدھا انہی کی طرف جا رہا ہے، پہلے میں سمجھا یہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد کچے پر اتر جائے گا اور یوں ہماری جان بخشی ہو جائے گی لیکن جب زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا تو میں نے اسے کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو ہوش سے کام لو، اس پر ڈرائیور نے بادل نخواستہ کار کچے پر اتار لی اور ان بسوں کے اتنے قریب پہنچنے پر اتاری کہ ڈرائیور کی طرف سے سائیڈ مرر بس سے ٹکراکر چکنا چور ہوگیا۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کی وجہ سے ہم جو سارے رستے میں چہکتے چلے آ رہے تھے کافی دیر تک خاموش رہے اور ہمارے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ کچھ دیر بعد میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ تمہیں سامنے سے آتی بسیں دکھائی نہیں دی تھیں؟ اس نے کہا ’’جناب وہ تو میں نے دیکھ لی تھیں‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ اگر تم نے بسیں دیکھ لی تھیں تو تم اپنی اور ہماری جان سے کھیلنے پر کیوں تلے ہوئے تھے؟ اس نے اپنی ناراضی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’جناب میں اپنے ہاتھ پر جا رہا تھا وہ لوگ غلط آ رہے تھے، آج مجھے آپ کی وجہ سے اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنا پڑا۔‘‘
ہمارے ہاں ہونے والے ٹریفک کے حادثات کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ فضول چیزوں پر وقت ضائع نہیں کرتے کہ جانتے ہیں وقت بہت قیمتی چیز ہے جس قوم کو اتنے کام ہوں وہ اگر سرخ بتی پر کھڑا ہونا شروع کردے جو اس نے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھی ہوئی ہے تو یہ محض وقت کاضیاع ہے، یا اگر وہ ایک لین سے دوسری لین میں جانے سے پہلے انڈیکیٹر دینے بیٹھ جائے تو دوسرے ہاتھ میں جلتے ہوئے سگریٹ کی وجہ سے آتش زدگی کا امکان ہوتا ہے یا موبائل فون پر ہونے والی نہایت ارجنٹ گفتگو میں بریک آسکتی ہے جس کے نتیجے میں اگلے روز لارنس گارڈن میں ہونے والی ملاقات کینسل ہو سکتی ہے۔ٹریفک حادثات کی تیسری وجہ بھی بہت مثبت ہے اور اس کی جڑیں ہمارے کلچر میں ہیں، کسی تیز رفتار سڑک پر جاتے ہوئے اگر ہمیں اپنا کوئی دوست رستے میں کھڑا نظر آ جائے تو ویگن والے کو کوئی مسافر گرمی یا سردی کے عالم میں ویگن کا انتظار کرتا نظر آئے تو اس موقع پر عین چوک میں فوری طور پر بریک لگانا ہماری ثقافتی ذمہ داری ہے، ایسے مواقع پر محض اس خیال سے سو دو سو گز آگے جا کر گاڑی روکنا کہ پیچھے آنے والی گاڑیاں حادثے کا سبب بنیں گی، مادہ پرستی کی ذیل میں آتا ہے ہم جانتے ہیں کہ بیس پچیس جانیں ہمارے کلچر سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔
میرے نزدیک ٹریفک کے حادثات کی ایک اور وجہ بھی ہے اور یہ وجہ ہماری قوم کی غریب پروری ہے۔پولیس کے محکمے میں تنخواہیں پہلے ہی بہت کم ہیں۔اگر ہمارے عوام بھی پولیس سے تعاون نہ کریں اور ٹریفک کے اصولوں کی پابندی شروع کر دیں تو ملک میں غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ہمارے عوام کی یہ سوچ عوام اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی کی علامت ہے کہ دونوں ملک سے غربت کا خاتمہ اسی طرح ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعے چاہتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں کسی واقعہ یا حادثہ کی وجوہات بیان کرنے کے بعد آخر میں ایک ’’فوری وجہ ‘‘ بھی بیان کی جاتی ہے اور اس سلسلے کی فوری وجہ یہ ہے کہ پہلے ہمارے ہاں مفکر پیدا ہوا کرتےتھے اب ’’متفکر‘‘ پیدا ہوتے ہیں چنانچہ یہ متفکرین ڈرائیونگ کے دوران کائنات اور موت وحیات ایسے مسئلوں پر غور کرتے نظر آتے ہیں ان کے زیر غور مسائل میں سے موت کا مسئلہ فوری طور پر حل ہو جاتا ہے ۔فوری وجہ عموماً ایک ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اس مسئلے کی فوری وجہ ایک اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے عوام کا اعتماد دائیں اور بائیں دونوں بازوئوں سے اٹھ گیا ہے چنانچہ وہ سڑک کراس کرتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھتے بلکہ ’’صراط مستقیم‘‘ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں ان کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو عموماً صراط مستقیم پرچلنے والوں کا ہوتا ہے۔
بعض ’’کمیونسٹ‘‘ قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ ٹریفک کے حادثات کا باعث بننے والی بیشتر وجوہات کا تعلق ہمارے عوام کی معاشی پریشانیوں سے ہے، ان کے لئے جینا مرنا ایک برابر ہو کر رہ گیا ہے بلکہ بسااوقات مرنے کی صورت میں لواحقین کی روٹی پانی کا خرچہ نکل آتا ہے ۔ ایک گائوں کے نمبردار کی گائے چوری ہو گئی اس نے سب مشکوک لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا اور کہا کہ جو قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ دے کہ ’’اگر گائے میں نے چوری کی ہے تو میرے بچے مریں ‘‘ تو میں اس کی بات پر یقین کر لوں گا، سب لوگ قرآن پر ہاتھ رکھ کر اور یہ جملہ ادا کرکے چوری کے الزام سے بری الذمہ ہوگئے۔ جب یہ نمبردار کے ڈیرے سے باہر گئے تو ایک شخص جسے علم تھا کہ یہ گائے میراثی نے چوری کی ہے، میراثی سے کہا ’’میں جانتا ہوں گائے تم نے چوری کی ہے اس کے باوجود تم نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ اگر میں نے گائے چوری کی ہو تو میرے بچے مریں؟‘‘ میراثی نے کہا میرے بچےویسے بھی بھوک سے مر رہے ہیں میں نے سوچا چند روز گائے کا دودھ پی کر مریں گے تو کیا حرج ہے؟‘‘
خواتین و حضرات ! آج میرا ارادہ محض ٹریفک کے حادثات کی وجوہ بیان کرنا تھا مگر میرے نہ چاہنے کے باوجود آخر میں ہمارے تمام قومی مسائل کی وجہ سامنے آگئی۔
ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ اگر ظالمانہ سرمایہ داری نظام کی وجہ سے اس کے بچوں نے آئی ایم ایف کی قسطوں کی طرح قسطوں میں ہی مرنا ہے تو وہ چند روز چوری کا دودھ پی کر کیوں نہ مریں ؟ یہ سوچ اب افراد ہی کی نہیں سارے اداروں کی بھی ہے افراد ذہنی طور پر اور ادارے مالی طور پر کنگال ہوتے جا رہے ہیں ۔ہمیں اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے ، مگر اس کے لئے کوئی ادارہ نہ بنایا جائے ورنہ اس ادارے کے کنگال ہونے پر ایک اور ادارہ بنانا پڑے گا جو سوچے گا کہ کنگال ہونے کی وجوہات تلاش کرنے والے ادارے کے کنگال ہونے کی وجوہات کیا تھیں ؟
.