• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بڑی خوش دلی کے ساتھ سندھ کے شہر، ٹنڈو محمد خان میں ہندو محلے میں گئی، جہاں مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ ماریہ پرتاپ سے ضرور ملیں، ہنستی ہوئی ایک عورت گھا گھرے، چولی اور دوپٹے کے ساتھ گھر سے نکلی، اس نے جو اپنی کہانی سنائی، میں نے کہا تم خود لکھوا کر بھیجو، شرماتے ہوئے بولی ’’پڑھی تو پانچویں تک ہوں، مگر اب لکھنا پڑھنا بھول گئی ہوں۔‘‘ میرے ساتھ گوہر جمال تھی میں نے کہا ’’اچھا تم بولتی جائو اور جمال لکھ کر بھیج دیگی، میں اس کو اپنے کالم میں شامل کرلوں گی۔‘‘
پہلے تو مجھے اعتبار نہیں آیا کہ ساری این جی اوز یونہی عورتوں سے رٹی رٹائی باتیں کرواتی ہیں…اگر انہوں نے اچھا کام کیا ہوتا تو ملک کی تقدیر نہ بدل جاتی مگر جب ایک گھر سے نکل کر سارے پچیس گھروں میں وہ مجھے لے کر گئی تو ہرخاتون خوش تھی کہ اس کی بچی پڑھنے کیلئے اسکول جارہی ہے، اب میں نے اپنے اندرکے سوال کو باہر نکالا ’’پہلے کیوں نہیں جاتی تھی‘‘ ایک اور خاتون چمک کر بولی ’’ہمارے پاس اسکول یونیفارم بنانے کے پیسے نہیں تھے، کتابیں اور بستہ بھی کیسے لیتے، جب ہمیں گوہر جمال نے کہا کہ این۔آر۔ایس۔پی کی طرف سے ہم یہ سب سامان فراہم کریں گے، ہائے اب دیکھیں ہماری بچیاں کتنی اچھی لگ رہی ہیں، میں مسکراتے چہروں کو ایک ایک کرکے دیکھتی رہی، گوہر جمال بھی خوش تھی کہ اس کی محنت رنگ لائی، باتوں سے اندازہ ہوا کہ غربت کے باعث ان کی بچیاں اسکول نہیں جاتی تھیں، اب امداد ملی ہے تو اب نہ ہمیں احساس کمتری ہے اور نہ بچوں کو،’’پیچھے سے ایک عورت بولی‘‘ ہم نے لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں کے بھی یونیفارم، بستہ اور جوتے لئے ہیں، ان سب چیزوں کو دیکھ کر بچے خوشی خوشی اسکول جانے لگے ہیں۔
ٹنڈومحمدخان کے دیہات میں کافی آبادی ہندوئوں کی ہے، ہر چند ملاقات دوپہر کے وقت ہوئی، میں نے آہستہ سے کہا ’’کیا اس وقت آپ بھجن سنائیں گی۔‘‘ ان میں سب سے بزرگ عورت جو زمین پرساڑھی پہنے بیٹھی تھی، اس نے منجیرہ بجانا شروع کیا، اب تو سب مل کر گانے لگیں، لطف اور آیا کہ انہوں نے ہتھیلیوں پر گرم گرم حلوہ بھی رکھ دیا، مجھے یاد آیا میں پٹنہ گئی تھی، وہاں گروگوبند سنگھ کا مزار بھی اور گردوارہ بھی ہے، ہرچند پٹنہ شہر کے اندرون علاقے کو پار کرکے گردوارہ آتا ہے، اچھا یہ ہوا کہ ان باریک اور تنگ گلیوں میں زمین پربیٹھی عورتیں، مچھلی بیچ رہی تھیں، سبزیاں بیچ رہی تھیں، چھوٹی چھوٹی پوریاں تل رہی تھیں، وہیں زمین پر بیٹھ کر لوگ کھا بھی رہے تھے، ان لمبی گلیوں سے گزر کر آخر گروگوبند سنگھ کے گردوارے پہنچے، دعا کی اور پھر ہاتھوں میں گرم گرم حلوہ مزا دے گیا، مجھے اب شیعوں کی مجالس یاد آگئیں، اہل بیت کے ذکر کے بعد ان کی مجالس میں بھی کراچی میں شیرمال اور دوسرے شہروں میں کچھ نہ کچھ شامل لوگوں کو دیا جاتا ہے، سنیوں میں وہ بھی جو بریلوی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، شب نعت اور گھروں میں میلاد شریف کے بعد، کبھی باقاعدہ کھانا اور کبھی شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، دوسرے مسلمان طبقات میں ختم قرآن یا آیت کریمہ کے ختم کے بعد بھی شیرنی تقسیم کی جاتی ہے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندو مذہب کے اثرات کے تحت برصغیر میں یہ منظر نامہ نظر آتا ہے کہ دیگر مشرق وسطی کے ممالک میں کہیں کھجوریں کھلا دی جاتی ہیں تو کہیں پودینے کا قہوہ پلایا جاتا ہے، ارے یہ میں ٹنڈو محمد خان کے گائوں سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، چلیں اب میں آپ کو ماریہ کی تحریر پڑھواتی ہوں، شاید یونہی دوسری خواتین بھی پڑھنے لگیں، آخر مسلمانوں کیلئے تو قرآن پڑھنا لازمی ہے۔ ماریہ کہتی ہے کہ ہماری تنظیمات میں زیادہ تر ان پڑھ خواتین ہیں ایل ایس کی جنرل باڈی میں چوبیس (24)عورتوں میں سے صرف چار ایسی ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتی ہیں، اس صورتحال کو میں نے نہ صرف اپنی تنظیم بلکہ ایل ایس او کی سطح پر اٹھایا کہ تعلیم پر حق بیٹے اور بیٹی دونوں کا ہے ہمارے بہت سے مسائل کا تعلق عورتوں کی ناخواندگی سے جڑا ہے، تنظیمات میں چونکہ ایسی بہت سی خواتین تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اسکول نہیں جاسکیں اور ان پڑھ رہ گئیں، یہی وجہ تھی کہ سب نے میرا ساتھ دیا اور اتفاق رائے سے ہم نے دیگر مسائل کے ساتھ تعلیم کے معاملے کو سرفہرست رکھا اور یہ طے کیا کہ تنظیمات کی تمام ممبران گھر گھر جاکر والدین کو اس بات پر قائل کریں گی کہ اپنے بچوں اور بالخصوص اپنی بچیوں کو اسکول میں داخل کروائیں، ایل ایس اوڈگ موری کی ممبران کی کوشش سے اب تک 112بچے اور بچیوں کا داخلہ اسکولوں میں کروایا گیا ہے ان میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔
میں اپنے محلہ لدھو کوہلی کے ہر اس گھر میں گئی جن کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت تھی لیکن وہ غربت اور کم علمی یا علاقائی رسم و رواج کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے تھے انہیں آمادہ کیا اور میں نے اب تک 35گھروں سے 15بچوں کو اسکول میں داخل کروایا ان 15بچوں میں 3؍لڑکے اور باقی سب لڑکیاں ہیں۔
ماریہ پرتاپ نے کہا تنظیم میں شامل ہونے کے بعد میرے اعتماد میں اضافہ ہوا لوگ میری بات سنتے ہیں میرا آج میرے گزرے ہوئے کل سے بہت مختلف ہے پہلے میں ایک اکیلی عورت تھی آج میں دیہی تنظیم کی منیجر ہوں ایک کارکن ہوں، اور اب میں پر اعتماد ہوں بچیوں کی تعلیم کے مقصد کو لے کر تنظیمات کے فورم پر بات کرتی ہوں اور گائوں میں گھر گھر جاکر لوگوں کو اس بات پر قائل کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کو اور بالخصوص اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہ کرو، میں خوش ہوں کہ میری تنظیم لدھو کوہلی کے مستقبل کا مشن یہی ہے کہ گائوں میں جس گھر سے لڑکا اسکول کا بیگ لے کر نکلے گا اس گھر کی بچی بھی اسکول کی کتابیں لے کر گھر سے اسکول تک جائے گی، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بننے والی دیہی تنظیم میں 100 فیصد پڑھی لکھی عورتیں ہوں، میرا بلکہ میری تنظیم کا یہی مستقبل کا منصوبہ ہے کہ اپنے گائوں میں بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں میں تعلیم سے محرومی کے احساس کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔

.
تازہ ترین