• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے بھارتی نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستانی ایجنسیوں نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے انڈیا کی سرتوڑ کوشش رہی کہ وہ بھی کسی ریٹائرڈ یاحاضر سروس پاکستانی فوجی افسر کو قابو کر کے یہ ڈرامہ رچائے کہ وہ جاسوسی کے مشن پر ہے اور پاکستان سے حساب برابر کر لے بالآخر بھارت اس میں کامیاب ہوگیا جب اس نے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل حبیب کو ٹریپ کر لیا۔ ایک بھارتی جنونی تجزیہ نگار نے تو یہ بھی تجویز دی ہے کہ پاکستان کے کسی ریٹائرڈ جنرل جو کہ بھارت کے دورے پر ہوں کو پکڑ لیا جائے اور اسے کلبھوشن یادیو سے ایکسچینج کیا جائے۔ کرنل حبیب کو ایک جعلی ٹیلی فون کال جو کہ بظاہر لندن سے کی گئی تھی مگر اس کا اصل مرکز بھارت تھا کے ذریعے ملازمت کا جھانسہ دے کر نیپال بلایا گیا اور وہاں سے انہیں اٹھا لیا گیا۔ نیپال میں بھارت کا کتنا اثرورسوخ ہےاس کا اندازہ ایک نیپالی صحافی کی اس بات سے ہوا جو انہوںنے کئی سال پہلے ہم سے کہی تھی کہ کھٹمنڈو میں بھارتی سفیر نیپال کے بادشاہ سے زیادہ طاقتور ہے۔ بھارت کو نیپال میں من پسند کارروائیاں کرنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں لہذا کرنل حبیب کو بھی نیپال کے علاقے سے ہی بھارتی ایجنسی کا اٹھایا جانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔ ابھی تک بھارت نے کرنل حبیب کی گرفتاری کا ڈرامہ آشکار نہیں کیا مگر بھارتی میڈیا میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کی حراست میں ہیں۔ اس دعوے میں کرنل حبیب اور کلبھوشن یادیو کا تعلق سامنے لایا گیا ہے، یہ بھی کہ کرنل حبیب اس بھارتی جاسوس کو گرفتار کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے اور بھارتی ایجنسیاں ایک عرصہ سے کرنل حبیب کے پیچھے لگی ہوئی تھیں۔
ریٹائرڈ فوجی افسران کیلئے یقیناً ایس او پیز موجود ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اندرون اور بیرون ملک ملازمت کیلئے کس پراسس سے گزرنا چاہئے،کہاں کہاں سے اجازت لینی چاہئے اور کتنے سال تک وہ کوئی دوسری جاب کرسکتے ہیں۔ ان ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ کرنل حبیب جیسے واقعات سے بچا جاسکے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف اس وقت تک اسلامک ملٹری الائنس کے سربراہ نہیں بن سکتے جب تک کہ وزارت دفاع انہیں این او سی نہ دے۔ اسی طرح ہر افسر کو سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے کتنے سالوں تک خصوصاً بیرون ملک ملازمت بغیر جی ایچ کیو کی اجازت کے حاصل نہیں کرسکتے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو قانونی نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کرنل حبیب نے نیپال میں جاب انٹرویو کیلئے متعلقہ اداروں سے این او سی لیا؟ یہ انتہائی سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے کیونکہ بھارت اس ریٹائرڈ افسر کو قابو کرکے کلبھوشن یادیو کو کسی نہ کسی طرح چھڑانا چاہتا ہے۔ یہ سوال کئی بار اٹھا کہ کیا آئی ایس آئی کے سابق چیف احمد شجاع پاشا نے متعلقہ اداروں سے این او سی لیا جب وہ ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد ہی یو اے ای میں مشیر مقرر ہوگئے مگر اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا تھا۔ ویسے تو تمام افسران جو آرمی، نیوی اور ایئرفورس سے ریٹائر ہوتے ہیں ان پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ اجازت کے بغیر بیرون ملک ملازمت نہ لیں مگر خصوصاً وہ افسران جو انٹیلی جنس اداروں میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں پر اس پابندی کا اطلاق انتہائی سخت ہونا چاہئے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم 80ء کی دہائی کے آخر میں روس دو ماہ کے کورس جس میں 24 ممالک سے صحافی شریک تھے کیلئے گئے تھے تو اس وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہاں کی فوج، نیوی،ایئرفورس اور دوسرے بہت سے حساس اداروں کے ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد کئی سالوں تک ملک نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے ہاں تو الٹی گنگا ہی بہتی ہے بہت سے سینئر ترین افسران ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد کسی نہ کسی پرائیویٹ ادارے میں بڑی بڑی تنخواہوں پر کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کیلئے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے۔ سول بیورو کریسی میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔
دنیا کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ ایک حاضر سروس جاسوس پکڑا گیا جس نے چند گھنٹوں بعد ہی سب کچھ اگل دیا۔ جب انڈین وزیر خارجہ نے اس جاسوس کو بھارت کا بیٹا قرار دیا تو مزید واضح ہوگیا کہ یہ پکا جاسوس ہے اور کتنے ’’اہم‘‘ مشن پر کام کر رہا تھا یعنی بلوچستان اور کراچی میں تباہی پھیلا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں کوشاں تھا۔ کئی سالوں سے پاکستان کہہ رہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے جس کے ثبوت بھی یہ کئی بار پیش کر چکا ہے۔ بھارت نے بھی ایسی مداخلت کبھی نہیں چھپائی کیونکہ وزیراعظم نریندرا مودی اور کچھ دوسرے اہم حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران بھی ایسی بات کھل کر کہہ چکے ہیں۔ جب کلبھوشن یادیو پکڑا گیا تو بھارت کے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ سازش بے نقاب ہوگئی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ زور دے کر کہا ہے کہ بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں بھارتی مداخلت افغانستان کے ذریعے ہو رہی ہے تاہم کلبھوشن یادیو ایران سے ایسی کارروائیاں کر رہا تھا۔ پاکستان نے اس جاسوس کی سرگرمیوں سے ایرانی صدر کو بھی آگاہ کیا تھا۔ پاکستانی قانون کے مطابق جاسوس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔ اس کیس نے ایک نیا انتہائی اہم موڑ لے لیا جب آرمی نے یہ اعلان کیا کہ اس نے لیاری کے سابق ڈان عزیر بلوچ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔ دوران تفتیش ملزم نے کلبھوشن یادیو کے ساتھ اپنا تعلق آشکار کیا ہے۔ ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ یہ ایران کے ذریعے آپریٹ کرتے رہے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کئی سال چاہ بہار میں رہ کر پاکستان کے خلاف کام کرتا رہا اور وہاں سے وہ اکثر و بیشتر بلوچستان بھی آتا رہا۔ عزیر بلوچ کا ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کیلئے کام کرنے کا بتایا گیا ہے۔ جب عزیر بلوچ کو دبئی میںگرفتار کیا گیا تو اس وقت اس کے قبضے سے ایرانی پاسپورٹ بھی ملا تھا۔ بلاوجہ ایسے پاسپورٹ حاصل نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ کوئی ’’خدمات‘‘ اس ملک کیلئے سرانجام نہ دی ہوں۔ عزیر بلوچ کو اس وقت آرمی تحویل میں لیا گیا ہے اور فوجی عدالت میں انتہائی سنگین جرائم پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا ہے جب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نےکلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عزیر بلوچ کا مقدمہ لمبے عرصے تک نہیں چلے گا کیونکہ فوجی عدالتوں میں فیصلے بہت جلدی ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عزیر بلوچ کے ساتھ اور کون کون سے پاکستانی عناصر سامنے آتے ہیں جو اس گھنائونے کام میں شریک رہے۔ یہ اچھے دنوں میں پیپلزپارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کی آنکھ کا تارہ تھا اور اسے مختلف مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم کئی سال قبل پیپلزپارٹی نے اس سے لاتعلقی کرلی۔اس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سے اس لئے بھاگا کہ اسے خطرہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت اسے مار دے گی۔ ایک وقت تھا جب لیاری میں کوئی الیکشن بھی عزیر بلوچ کی حمایت کے بغیر نہیں جیتا جاسکتا تھا مگر اب اس سے کوئی بھی کسی قسم کا تعلق رکھنے کو تیار نہیں ہے اور وہ بے یارو مدد گار ہے یہاں تک کہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جو کہ عزیر بلوچ کے بہت بڑے حمایتی تھے نے بھی خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے۔لیاری کی جرائم کی دنیا کے سابق ’’بے تاج بادشاہ‘‘ پر ہمیشہ قتل، اغوا، بھتہ خوری اور منشیات فروشی کے بے شمار الزامات لگے مگر اس کی دوسرے ممالک کیلئے جاسوسی پہلی بار سامنے آئی۔

.
تازہ ترین