• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سرحد کے بالکل قریب افغان صوبہ ننگر ہار کے ضلع اچین میں داعش کے زیر استعمال سرنگوں اور غاروں کے خفیہ کمپلیکس پر امریکی فضائیہ کے سی130طیارے کے ذریعے 21ہزار 600پونڈ (11ٹن) وزنی بارودی مواد پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے غیر ایٹمی ’’مادربم ‘‘سے حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم جوئی کا تازہ مظاہرہ ہے جس کا جمعرات کو امریکی ترجمان کے بیان کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کو چوکنا کرنے کے لئے کافی ہے۔ امریکی ترجمان نے اس بیان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو قابل قدر تو قراردیا لیکن ساتھ ہی ’’ڈو مور‘‘ کا تقاضا کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے افغانستان کے اندر امریکی و افغان فورسز پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ننگر ہار پر حملے میں پہلی بار استعمال کیا جانے والا غیر جوہری بم، ایٹم بم کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ہتھیار ہے۔ وائٹ ہائوس نے اس حملے کی تصدیق تو کردی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس سے داعش کا نقصان کتنا ہوا وائٹ ہائوس کے ترجمان کے مطابق داعش کے اس خفیہ ٹھکانے سے امریکی افواج اور مشیروں پر حملے کئے جا رہے تھے۔یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ دہشت گردی کا شکار اس وقت صرف اسلامی ممالک ہیں اور امریکہ بھی داعش اور القاعدہ کی موجودگی کے بہانے انہیں حملوں کا نشانہ بنانے کے جواز تراشتا ہے۔ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں خود امریکہ نے جنم دیا۔ القاعدہ سی آئی اے کے نمائندہ کے طور پر پاکستان آئی اور پھر دشمن قرار پائی، داعش کے بارے میں بھی اسی قسم کی اطلاعات ہیں۔ اب دونوں تنظیموں کی موجودگی کو امریکہ اسلامی ممالک میں مداخلت کا جواز بناتا ہے اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ داعش اور القاعدہ کا ہدف اسلامی ممالک ہیں اوران کا تعاقب کرتے ہوئے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا ہدف بھی اسلامی ممالک ہی ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا اس نے کیا، یہ پاکستان کی مسلح افواج ہی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا اور اب اندرون ملک آپریشن ردالفساد کے ذریعے بچے کھچے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان سے بار بار’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی بھارت کی جانب سے بھی جہاں انتہا پسند نریندر مودی برسر اقتدار ہے، دھمکیاں مل رہی ہیں۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے ضمنی انتخابات میں جو شرمناک ہزیمت اٹھانا پڑی اس پر اصولاً اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئے تھیں اور اسے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آنا چاہئے تھا مگر اس کی بجائے اس نے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کرنےکو ترجیح دی ہے۔ ان انتخابات میں مجموعی طور پر ووٹروں کا ٹرن آئوٹ چار فیصد سے بھی کم رہا جس پر سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو بھی کہنا پڑا کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات کرے ورنہ کشمیر ہاتھ سے گیا۔ خود بھارت کے اندر بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے بامعنی مذاکرات کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور امریکہ ایک طرف کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کر رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی پیٹھ بھی ٹھونک رہا ہے اور پاکستان کو ’’ ڈو مور‘‘ کے بہانے ڈرا دھمکا بھی رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کے سب سے قابل اعتماد دوست چین کو شمالی کوریا میں الجھانے کی بھی کوشش کررہا ہے جس نے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردارہونے کا امریکی مطالبہ مسترد کر کے اس کے اشتعال کو دوچند کر دیا ہے۔ اس پر امریکہ نے کوریائی خطے میں اپنے بحری بیڑے کو متحرک کر دیا ہے اور کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لئے چین نے بھی اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج سرحد پر بھیج دی ہے۔ ان تمام علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ضروری ہے کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنی سلامتی کے تحفظ کے لئے چوکس اورقوم اپنی سیاسی و عسکری قیادت کےپیچھے چٹان کی طرح کھڑی رہے۔

.
تازہ ترین