• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ صحافی اور اینکرز جو میاں نوازشریف کی حکومت سے عہدے لے چکے یا لینے کے طلبگار ہیں اور یوں ان کو قائداعظم ثانی ثابت کرنے میں لگے ہیں ۔یا جو زرداری صاحب کے دسترخواں سے فیض یاب ہوئے یا پھر ان کی دوستی کے زعم میں مبتلا ہیں اور ان کے ہر جرم پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں یا جو میاں نوازشریف کی نفرت میں، ریٹنگ کے چکر میں یا پھر کسی طاقتور کے ایما پرعمران خان کو مسیحا بنا کر پیش کررہے ہیں ، ان کا معاملہ الگ ہے لیکن اپنی تو دیانتدارانہ رائے ہے کہ سیاست و حکمرانی کے بنیادی معاملات میں تینوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ تبھی تو ایک حکمران رہے یا دوسرا یا تیسرا، مجھے اپنی صحت پر کوئی اثر پڑتا نظر آتا ہے اور نہ ملک کی صحت پر ۔ اپنی اپنی جماعتوں کے اندر تینوں رہنما آقا ہیں اور باقی سب ان کے غلام ۔ زرداری صاحب کسی حد تک اختلاف رائے برداشت کرتے ہیں لیکن میاں نوازشریف اور عمران خان تو چاپلوسی اور خوشامد کی روش سے سرمو انحراف کرنے والوں کوبھی اپنی صفوں میں برداشت نہیں کرتے ۔ کرپشن اور احتساب کے معاملات میں بھی تینوں کا طریقہ واردات مختلف لیکن بنیادی رویہ ایک جیسا ہے ۔ پیپلز پارٹی ڈاکہ ڈالتی ہے ، مسلم لیگ چوری کرتی ہے (اگرچہ بسا اوقات اس چوری کی مقدار ڈاکے سے زیادہ ہوتی ہے ) جبکہ پی ٹی آئی چوری کے ساتھ ساتھ سینہ زوری بھی کرتی ہے ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تو عوام کیا بلکہ ان کے کارکن بھی کرپٹ مانتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے شوروغوغا سے اپنے متعلق مخالفین کو بھی اس مغالطے میں ڈال دیا ہے کہ وہ فرشتے جو اپنا اور دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں ۔ حالانکہ کتنے معروف کرپٹ عمران خان کی چھتری تلے جمع ہوکر صاف ہوگئے ہیں ۔ پارٹی کے بڑے بڑے پرانے اور نوجوان بقراط ان کرپٹ سرمایہ داروں کے غلام بن کر ان کے پیروں میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تو مخالفین کرپشن کا الزام لگارہے ہیں لیکن پختونخوا میں وزیراعلیٰ کو ان کے وزیر اور وزرا کرپٹ قرار دے رہے ہیں جبکہ وزرااور اراکین اسمبلی کو وزیراعلیٰ کرپٹ اور بلیک میلر کے خطابات دے رہے ہیں ۔تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ سب پی ٹی آئی میں ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں آزاد اور خودمختار احتساب کمیشن کے قیام کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا اور ٹی وی چینلوں ٖپر قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر پی ٹی آئی کے بقراط یہ تاثر دیتے رہے کہ جیسے خیبر پختونخوا میں خلفائے راشدین کے دور کا نظام احتساب قائم کردیا گیا ہے لیکن آئیے ذرا اس احتسابی عمل کا جائزہ لیتے ہیں ۔اس کے بعد اگر تحریک انصاف کسی کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے مختلف نظر آئی تو میں پی ٹی آئی کے ترجمانوں کی گالیوں کے ساتھ ساتھ کوئی بھی اور سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔
عام عدالتوں کے علاوہ قومی احتساب بیورو اور صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کی موجودگی میں احتساب کے لئے چوتھے ادارے کے قیام کی بجائے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عدالتی نظام کی بہتری یا قومی احتساب بیورو کی اصلاح پر توجہ دی جاتی لیکن اگر وہ وفاقی حکومت کے زیرانتظام ہیں تو صوبائی احتساب کمیشن کے نئے ادارے کی بجائے اگر محکمہ اینٹی کرپشن کو حقیقی معنوں میں اینٹی کرپشن کا ادارہ بنا دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا (واضح رہے کہ اس ادارے کا سربراہ پرویزخٹک صاحب نے اپنے پی ایس او زیب اللہ خان کو رولز کی خلاف ورزی کرکے لگایا ہوا ہے اور اس وقت وہ ایک طرف وزیراعلیٰ کے ساتھ سیکورٹی اور پروٹوکول ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں اس محکمہ کا بھی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے ) لیکن نئی قانون سازی کرکے خیبر پختونخوا احتساب کمیشن قائم کردیا گیا ۔ عمران خان صاحب نے اپنے کرکٹ کے دنوں کے دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کو اس کا سربراہ مقرر کیا حالانکہ اس وقت ان کی اہلیہ صوبائی سیکرٹری تعلیم کے طور پر بھی کام کررہی تھیں۔ اس کمیشن کی کل کارکردگی یہ رہی کہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر خٹک صاحب نے ان سے نوشہرہ میں اپنے سیاسی حریف لیاقت خٹک کو گرفتار کروایا ۔ پھر اے این پی کی خاتون سینیٹر کے خلاف وارنٹ ایشو کروایا گیا ۔ آخری کارنامہ جواس کمیشن کے حصے میں آیا وہ عمران خان اور پرویز خٹک کے ساتھ جھگڑے کے بعد پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کی گرفتاری تھی ۔ حالانکہ ضیاء اللہ کی گرفتاری سے ایک سال قبل خودعمران خان صاحب نے کرپشن کا الزام لگا کر اپنے دو وزرا یاسین خلیل اور شوکت یوسفزئی کو وزارتوں سے الگ کیا تھا لیکن اس احتساب کمیشن نے ان کے خلاف انکوائری تک نہیں کی ۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی کے وزرا پر خود خان صاحب نے کرپشن کے الزامات لگاکر اپنی حکومت سے الگ کیا تھا لیکن ان کے خلاف اس احتساب کمیشن نے کوئی کارر وائی نہیں کی اور اب جب ان کو دوبارہ حکومت میں شامل کرایا گیا توا سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے رہنما ئوںکے وفد نے جاکر اس وقت کے قومی وطن پارٹی کے وزیر بخت بیدار سے معافی مانگ کر راضی کرلیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کے اپنے مقررکردہ احتساب کمشنر جنرل حامد کے اختلافات پیدا ہوئے تو ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لئے اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ جنرل حامد کے استعفیٰ کے بعد ایک صوبائی وزیر کے رشتہ دار کو ایکٹنگ ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا جو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال اس منصب پر کام کررہے ہیں ۔ حالانکہ احتساب کمیشن کے ایکٹ کے مطابق ایک سو بیس دن کے اندر اندر نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری ضروری ہے ۔ اس دوران کمیشن کے ڈائریکٹر انوسٹی گیشن کی پوسٹ بھی خالی رہی جبکہ کمشنروں کے اختیارات اور مراعات کے تنازع کی وجہ سے وہ بھی کام نہیں کررہے تھے لیکن اپنے قانون کو بالائے طاق رکھ کر وزیراعلیٰ اپنے بندے کی تلاش میں مگن رہے ۔ ان کی نظر اپنے خاص بندے وقار ایوب پر پڑی لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ وہ اس وقت صوبائی محتسب ہیں اور صوبائی محتسب کے ایکٹ کی رو سے اس کے سربراہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا عرصہ گزرجانے تک ڈی جی احتساب کمیشن جیسا عہدہ نہیں لے سکتے تھے ۔ چنانچہ ان کی خاطر صوبائی محتسب ایکٹ میں ترمیم کی سمری وزارت قانون نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر چیف سیکرٹری کی دستخطوں سے جون 2016میں کابینہ کی منظوری کے بغیر اسمبلی میں بھجوادی ۔ اب کابینہ کی منظوری سے قبل اس طرح کی قانون سازی اسمبلی کے ذریعے کرنا سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی تھی اور جب اس کی طرف توجہ دلائی گئی تو یہ معاملہ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں زیرغور لایا گیا۔ وہاں بعض وزرا نے سوال اٹھایا کہ کیسے ایک شخص کی خاطر قانون میں ترمیم کی جارہی ہے جس پر وزیراعلیٰ یکسر مکر گئے اور غلط بیانی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ معاملہ ان کے علم میں نہیں ہے ۔ حالانکہ وہ سمری جس پر ان کے دستخط موجود ہیں ، میرے پاس بھی دستیاب ہے ۔ گزشتہ ماہ کابینہ کے اس اجلاس کے بعد فیصلوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے صوبائی وزیر شاہ فرمان نے بھی یہ غلط بیانی کی ۔ اب وہ سوال ایک طرف کہ کابینہ کے سامنے وزیراعلیٰ اور میڈیا کے سامنے شاہ فرمان کی اس غلط بیانی کے بعد کیا وہ صادق اور امین رہے یا نہیں لیکن دوسرا تماشہ یہ لگا رہا کہ وزیراعلیٰ کے منظور نظر محتسب نے صوبائی احتساب کمیشن کے ڈی جی کی تقرری کی اسکروٹنی کمیٹی، جس کے بارے میں پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت خودمختار ہے ،کے نام نے 21 مارچ 2017کوخط بھیجا کہ چونکہ ان کی خاطر صوبائی محتسب ایکٹ میں تبدیلی کی جارہی ہے اور بل اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے ، اس لئے دو سال کی شرط سے صرف نظر کرکے انہیں بھی امیدوار تصور کیا جائے اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ قانون میں تبدیلی سے قبل اسکروٹنی کمیٹی نے جو تین نام حکومت کو منظوری کے لئے شارٹ لسٹ کرکے بھیجے ان میں اسی وقار ایوب صاحب کا نام بھی تھا۔ یہ تو بھلا ہوڈان اخبار کے متحرک رپورٹر وسیم احمد شاہ کا کہ انہوں نے اس سارے ڈرامے کو 31مارچ کی اشاعت میں شائع کرایا جس کے بعد حکومت کو اس منصوبے پر مجبوراً عمل درآمد روکنا پڑا ۔ چنانچہ اب ایک بار پھر صوبائی احتساب کمیشن کے قانون میں تبدیلی اور اس میںمن مانی ترامیم کا اعلان کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ادارے اس طرح مضبوط کئے جاتے ہیں ۔ اب بتایا جائے کہ ان حوالوں سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں کیا فرق ہے ؟۔کیا یہ چوری اور اوپر سے سینہ زوری والی صورت حال نہیں ۔اپنی حکومت میں احتساب کی یہ حالت دیکھیں اوردوسری طرف عمران خان صاحب کے احتساب احتساب کے نعرے دیکھیں ۔ مجھے تو حیرت ہورہی ہے جماعت اسلامی کی قیادت پر ۔ جو ایک طرف تو پورے ملک میں احتساب احتساب کے نعرے بلند کررہی ہے لیکن دوسری طرف خیبر پختونخوا میں اس حکومت میں حصہ دار ہے جو احتساب کے نام پر اس طرح کے ڈرامے رچا کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو پیچھے چھوڑ رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ میڈیا اور سیاست کے میدانوں میں بال کو پنجاب اور سندھ کی بنیاد پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کورٹ میں لے گئی ہے ۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور استعما ل کرکے وہ پختونخوا کا الٹ نقشہ قوم کو پیش کررہی ہے ۔ میڈیا ریٹنگ کے چکر میں پختونخوا پر دھیان دینے کو تیار نہیں ۔ میرا ایمان ہے کہ اگر پختونخوا میں طرز حکمرانی اور پی ٹی آئی کی اندرونی صورت حال سے قوم آگاہ ہوئی تو اسے اس رائے کو قائم کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ تینوں انیس بیس فرق کے ساتھ ایک جیسی ہی ہیں۔



.
تازہ ترین