• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرپاکستان کو درپیش مسائل کی فہرست بنائی جائے تو اس میں تقریبا اسی فیصد مسائل کی جڑسرکاری محکموں کی نااہلی نکلے گی۔ ہمارے ریاستی اداروں میں موجود لوگ عمومی طور پر کاہل اور کام چورہوتے ہیں، ایسے افراد کی موجودگی میں ریاست نہ تو امن و امان کی صورتحال بہتربنا سکتی ہے اور نہ ہی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنا سکتی ہے۔ آپ کسی بھی محکمے کو لے لیجئے، محکمانہ بجٹ کا سب سے بڑاحصہ محکمہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں صرف ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی جن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان افراد کو تنخواہ ادا کی جاتی ہے اس میں سے آدھے بھی حاصل نہیں ہو پاتے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے ہر صوبے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قیام پاکستان کے وقت سے محکمہ جنگلات موجود ہے،اس محکمہ کا بنیادی مقصد جنگلات کی نشوونما اور حفاظت ہے۔لیکن پچھلے ستر سالوں میں اس محکمے نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ عمران خان کے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی اور وزیر اعظم کے گرین پاکستان پروگرام کے علاوہ پچھلے ستر سالوں میں ان محکموں نے کتنے نئے جنگلات لگائے؟ کیا پاکستان بننے کے بعد ملک میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ ہوا یا پھر اس میں کمی ہوئی؟ ان سالوں میں ان محکموں کے ملازمین کس بات کی تنخواہ لیتے رہے؟
بات صرف جنگلات تک ہی محدود نہیں ہے، صحت کو ہی لے لیجئے، ہر صوبائی بجٹ میں صحت کے شعبے کے لئے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں، لیکن کیا صرف کئے جانے والے فنڈز سے عوام کوصحت کی بہترین سہولتیں میسر ہو پائی ہیں؟ شاید اس سوال کا جواب سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کی مدد سے دیا جا سکتا ہے جس میں انکشاف کیا گیا کہ سانحہ کے وقت کاغذوں میں موجوداسپتال کا بیشتر عملہ اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر تھا، رپورٹ کے مطابق اگر عملہ ڈیوٹی پر ہوتا تو بہت سی انسانی جانوں کوبچایا جا سکتا تھا۔ یہ صرف کوئٹہ کی بات ہی نہیں ہے، ملک بھر کے کسی بھی سرکاری اسپتال یا بنیادی صحت کے مرکزمیں چلے جائیں، حاضری کا رجسٹر لیں اور فرداََ فرداََ ملازمین کو چیک کریں، آپ کو کاغذوں میں موجود افراد کی بڑی تعداد غیر حاضر ملے گی۔ یہ ملازمین تنخواہ لے کر بھی کام کرنے کو شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں اور انہیں یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ سرکاری ملازمت سے کسی کو نکالناتقریباََ ناممکن ہے۔ جب آپ کو نااہلی پرملازمت سے نکالے جانے کا ڈر نہ ہو اور نہ دل میں اچھا کام کرگزرنے کی لگن تو پھر حالات وہی ہوں گے جو ہمارے ہاں سرکاری محکموںکے ہیں۔
ہمارے سرکاری اداروں کے غیرذمہ دارانہ رو یوںنے، ریاستی کردار کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔چونکہ موجودہ ریاستی اداروں میں نہ تو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی استطاعت، اس لئے یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ ریاست کے کردار کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی بجائے ، ان کی ادائیگی کرنے تک محدود کر دیا جائے اور فراہمی کا کام نجی شعبے کے سپرد کر دیا جائے۔ ٹرانسپورٹ اور ویسٹ مینجمنٹ کے شعبوں میں اس سوچ کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے، لاہور ، گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے بعد پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ان اداروں کو نجی شعبے کے سپرد کردیا گیا ہے، دیگر صوبوں نے بھی اس ماڈل میں دلچسپی کا اظہارکیا ہے اورسندھ حکومت بھی کراچی کی ویسٹ مینجمنٹ کے لئے ایک چینی کمپنی سے معاہدہ کر چکی ہے ۔
اسی سوچ کے تحت سندھ اور پنجاب میںابتدائی طور پر کچھ سرکاری اسکولوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا گیا ہے، دونوں صوبوں میں نجی شعبے کے زیر اہتمام چلنے والے کئی اسکولوں کو صوبائی حکومت کی جانب سے طلبا کی فیس کے لئے رقم فراہم کی جاتی ہے اور اسکول کے انتظامی امور چلانے میں خود مختاری دی گئی ہے۔ ان کاوشوں کا مقصد دراصل اس رقم کے استعمال کو موثر بناناہے جو کہ حکومت تعلیم کی مد میں خرچ کرتی ہے لیکن تعلیم کے موجودہ بوسیدہ نظام کے باعث اس کا ثمرعوام تک نہیں پہنچ پاتا۔
تعلیم کے علاوہ صحت کے شعبہ میں بھی اب ریاست اپنے انتظامی کردار کو محدود کرنے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، غریب عوام کو ہیلتھ انشورنس کی فراہمی کے بعد اب مریض کا دارومدار صرف سرکاری اسپتالوں پر نہیں رہے گا بلکہ وہ نجی اسپتال سے بھی علاج کروا سکے گا۔اس کے علاوہ صوبہ پنجاب میں مختلف ڈسٹرکٹ اورتحصیل اسپتالوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے کے منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت نجی شعبے سے اچھی شہرت رکھنے والے اداروں کو سرکاری اسپتالوں کے انتظامی امور سونپ دیئے جائیں گے اور صوبائی حکومت کا کام صرف فنڈز کی فراہمی تک محدود ہو جائے گا۔ نجی ادارہ اسپتال میں عوام کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو بلامعاوضہ یقینی بنائے گا ۔ یہ منصوبہ اگر درست انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تو عوام کے لئے بہت اچھی خبر ہوگی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کی حکومت نے بھی اسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ دنیا میں بہت سے ملکوں میں اس طرح کے منصوبو ں پر کامیابی سے عمل کیا جا چکا ہے، امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی میں بہت سے اسپتالوں کواسی طریقے کے تحت نجی شعبے کے سپرد کیا گیا ہے اور اعدادوشمار کے مطابق یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی بہت سے دیہی علاقوں میں موجود صحت کے مراکز کو نجی شعبے کی تحویل میںدینے کے منصوبوں پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔
اگر سرکاری ادارے اپنا کام احسن طریقے سے انجام نہ دے پائیں تو بہتر یہی ہے کہ نجی شعبے سے مدد حاصل کی جائے ، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کرتے وقت چیک اینڈ بیلنس کا مربوط نظام قائم کیا جائے تاکہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی یقینی بنایا جا سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے جو کمیشن اور رشوت سرکاری ملازمین کے ہاتھ آتا تھا، اب اس سے نجی شعبے کے افراد مستفید ہونے لگیں اور ان اداروں کو نجی اسکولوں اور اسپتالوں کی طرح پیسہ کمانے کی فیکٹریا ں سمجھ لیں۔ اگر ایسا ہوا تو عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔




.
تازہ ترین