• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1942میںدوسری جنگ عظیم نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ کے بعد امریکہ اپنے آپ کو دنیا کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کا نیا ’’باس‘‘ منوانا چاہتاتھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے دوشہروں ناگاساکی اور ہیروشیماپر دو ایٹم بم گرائے ۔6اور 9اگست کو گرائے جانے والے ایٹم بموں کے نام Little Boyاور Fat Manتھے۔گبر سنگھ ہویاسلطانہ ڈاکو،اسے اپنے دھندے کی دھاک بٹھانے کے لئے علاقے میں دہشت پھیلانا پڑتی ہے تاکہ عوام الناس اور صاحب ثروت طبقات سے تاوان وصول کیا جاسکے ۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ کو جدید دنیا کے لئے ’’گاڈ فادر ‘‘ توتسلیم کرلیاگیاتھالیکن گاہے اسے اپنے اس Boosy Image کو برقرار رکھنے کے لئے کبھی عراق سے مہلک اسلحہ برآمد کرنا پڑتاہے اورکبھی نائن الیون کے مجرموں تک پہنچنے کیلئے افغانستان پر حملہ آور ہوناپڑتاہے۔عراق سے لے کرشام تک اور لیبیا سے لے کر افغانستان تک امریکہ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت عالمی بھائی لوگ کی حیثیت سے اپنی دہشت کے ٹریلر دکھاتارہتاہے۔ دنیا کے 150ممالک میں امریکی فوجی دستے چھائونیاں ڈالے ہوئے ہیں۔ ننگر ہار پر امریکہ نے دنیا کا سب سے بڑانان نیوکلیئربم گرایاہے جسے ’’جی بی یو 43بی ‘‘ کانام دیا گیاہے۔ بم گرانے کی وجہ داعش کے ٹھکانوں اور سرنگوں کو تباہ کرنا بیان کی گئی ہے۔ ناگاساکی پر گرائے جانے والا لٹل بوائے نامی ایٹم بم 4,400کلوگرام جبکہ ہیروشیما کو برباد کرنے والا ایٹم بم جس کانام فیٹ مین تھا 4,670کلوگرام وزنی تھا۔ ننگر ہار پر گرائے جانے والا بم کاوزن 21,600پونڈ ہے جسے ’’بموں کی ماں ‘‘ کہاجاتاہے ۔ امریکہ کی طرف سے عراق اور صدام حسین کے خلاف جنگ کو بھی ’’جنگوں کی ماں ‘‘ کہاگیاتھا۔ جنگی ماہرین نے بیان کیاہے کہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقہ پرگرائے جانے والا بم جاپان پر گرائے گئے ایٹم بموں سے کچھ ہی چھوٹاتھا۔افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقہ ننگر ہار پر گرائے جانے والے’’ بموں کی ماں‘‘بم نے کتنی مائوں کے بیٹوں کو لقمہ اجل بنایاہے اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایاگیالیکن ناگاساکی اور ہیروشیما پرگرائے جانے والے ایٹم بموں سے 2لاکھ اور46ہزار انسان ایک لمحے میںصفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ننگر ہار کا نقشہ بھی بربادی اورتباہی کے سواکیاہوگا ؟
تاریخی طور پر توہم جنگجو قوم نہیں ہیں لیکن زبان وبیان اور گپ شپ میں ہم فرنگیوں، جرمنوں اور تاتاریوں کے بھی باپ ہیں۔برادرم حسن نثار اس عظیم الشان نشا ۃثانیہ کو تاریخی دھاندلی قراردیتے رہتے ہیںجس کے تحت ہم عربوں اور ترکوں کی بہادری کے قصے مسلم امہ کے وسیع رجسٹر اوربہادری کے کھاتے میں درج کرکے اپنے آپ کو بھی ایک ہرکولیس قوم قراردیتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ بحیثیت قوم ہم میں کوئی اچھائی نہیں ہے !!!عمران خان بیان کرتے ہیں کہ انہیں اپنے خیراتی اسپتال کا معاشی نظم ونسق چلانے کے لئے سب سے زیادہ چیرٹی پاکستان سے موصول ہوتی ہے۔زکوۃ اور خیرات دینے میں پاکستان صف اول کے ممالک میں شامل ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پھانسیاں دینے میں بھی نمبر ون ہے ۔یہ سچ ہے کہ ہم نے اپنے اس عظیم محسن اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا تھا جس نے ہمیں بموں کی ماں ایٹم بم مہیاکرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔بھٹو صاحب نے کہاتھاکہ میں اپنی قوم کو ہندوستان کے ایٹم بم کے بادلوں کے نیچے نہیں دیکھ سکتا، ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ۔بھٹو صاحب نے اپنا وعدہ پورا کیااور انہیں پھانسی دی گئی ۔بعدازاں ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی سیکورٹی رسک قراردیا گیا۔ بہت دنوں بعد خادم اعلیٰ کے ایک بیان نے دل ودماغ کو معطر کردیا ہے ۔فرماتے ہیں کہ ’’ حکومت ہماری ہو یا کسی اور کی مل کر پاکستان کو آگے لے کر جاناہے ‘‘۔زیر نظر اخباری بیان کسی عظیم ذہنی تحریک کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے ،اس جملے پر عمل پیرا ہوکر قوم اپنے فائنل ڈسٹی نیشن پر پہنچ سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے زندگی کا منشوراور نصب العین سمجھاجائے ۔’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کا رواج فیلڈ مارشل ایوب خان سے منسوب ہے ۔یہ نعرہ سب سے پہلے ایوب خان نے بلند کیاتھا بعدازاں جنرل یحییٰ خان اورجنر ل ضیاالحق دونوں اپنے پیش رو کے بتائے ہوئے رستے پر گامز ن رہے۔انفرادی طور پر جنرل یحییٰ خان نے ایک ’’کلر فل لائف ‘‘گزاری ۔میرے عزیز ہم وطنو کے ساتھ ساتھ ’’لڈی ہے جمالو‘‘ان کا ذاتی اسٹائل تھا۔جنرل یحییٰ خان سے برعکس جنرل ضیاالحق نے قوالیاں سنتے اور سردھنتے ہوئے گیارہ سال حکومت فرمائی ۔مجھے آج بھی یاد ہے 1988میں انہوں نے سیاستدانوں کو سست اور نااہل قراردیتے ہوئے کہاتھاکہ اگر انہیں پانچ مرتبہ بھی موقع ملاتو وہ غیر جماعتی الیکشن کرائیں گے ۔سیاستدانوں کو فاقہ مست کہتے ہوئے انہوں نے غالب کا حوالہ یوں دیاتھاکہ
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب یہ تنازع نہیں رہاکہ دہشت گردی ہویا کرپٹ سیاسی نظام اس کے ڈانڈے ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور سے جاملتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ضیاالحق کے سیاسی پسماندگان بھی اس گیارہ سالہ دور کوہی ’’برائیوں کی ماں ‘‘ قراردے رہے ہیں۔وزیر اعظم نوازشریف ترقیاتی پروجیکٹس پر تختیاں آویزاں کرتے ہوئے کہاکرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ‘‘۔اللہ تعالی انہیں اپنے فضل وکرم سے یہ مواقع مہیاکرتارہے۔بی بی بے نظیر بھٹو شہید نے کہاتھاکہ وہ اقتدار میں آکر معلوم کریں گی کہ ایٹمی راز شیئر کیسے کئے گئے تو آصف علی زرداری کو تنہا’’پاکستان کھپے ‘‘ کانعرہ بلند کرناپڑا۔اس سے قبل جنرل مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کانعرہ بلند کیا تھا۔سماجی اور ثقافتی محاذ پر گلوکار مسعودرانا کا گایاگیت ’’تانگے والہ خیرمنگدا‘‘ کسی کامیاب سیاسی نعرہ سے کم نہیں تھا۔میاں محمد بخشؒکا کلام جسے عنایت حسین بھٹی نے اپنے گجراتی انداز سے امر کردیا تھا وہ کچھ یوں تھا :سدا نہ بھاگی بلبل بولے ،سدا نہ باغ بہاراں ،سدانہ ماپے حسن جوانی ،سدا نہ صبحت یاراں(جس طرح باغ میں ہمیشہ بلبل بولتی نہیں رہتی ،اسی طرح جوانی ،دوست احباب اور ماں باپ کا ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا) ۔الحاج عالم لوہار بھی صاحباں کے عاشق مرزا جٹ کی داستان سنایاکرتے تھے ’’آوے ویرا میرزیا۔۔ وے ترلے کردی بھین،وے پُٹ پُٹ کردی مینڈیاں تے گوڑھے کردی وین ( میرزا جٹ تمہاری بہن منت سماجت کرتی ہے ،تمہاری بہن اپنے سر کی مینڈیاں کھولے تمہاری بربادی کا بین کرتی ہے ) خداکرے ہمارا انجام عالمی تنازعات میں مرزاجٹ جیسا نہ ہو۔آمین



.
تازہ ترین