• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لوگوں کی گفتگوئوں میں جتنا مبالغہ ہوتا ہے اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو شاعر ہونا چاہئے۔ مبالغہ شاعری کا اہم جزو ہےاور ہم لوگ مبالغے کے بادشاہ ہیں۔ اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک ’’ملک الشعراء‘‘ کہلائے جانے کے قابل ہیں۔ جب لاہور کے چیئرنگ کراس پر الفلاح بلڈنگ تعمیر ہوئی تو ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا ’’تم نے الفلاح بلڈنگ دیکھی ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ہم لوگوں نے تو ابھی تک فلاح کی راہ نہیں دیکھی، پوری بلڈنگ کہاں سے دیکھنا تھی؟‘‘ بولے ’’تم ہر وقت جلی بھنی باتیں نہ کیا کرو، کسی دن موقع ملے تو ضرور دیکھنا یہ ایشیا کی سب سے بڑی بلڈنگ ہے‘‘۔ میرے اس دوست نے براعظم ایشیا میں سے ابھی تک صرف میاں چنوں اوراس کا نواحی علاقہ ہی دیکھا تھا یا وہ باقاعدگی سے ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کا مطالعہ کرتا تھا مگر علم کتابوں ، رسالوں کے مطالعہ یا سیر و سیاحت کا محتاج کہاں ہوتا ہے؟ یہ تو ایک واہبی چیز ہے!
ایک روز ایک نوجوان میرے پاس آیا اور پوچھا ’’آپ کے خیال میں شیکسپئراور عبدالغفور زخمی میں کیا فرق ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’زخمی کو شیکسپئر پہ فوقیت حاصل ہے کیونکہ شیکسپئر صرف شیکسپئر تھا زخمی نہیں تھا‘‘ میرا یہ جواب سن کر موصوف کچھ سٹپٹا سے گئے، کہنے لگے ’’میرا مطلب تھا کہ ان دونوں میں سے آپ کے نزدیک کسے فوقیت حاصل ہے‘‘ میں نے کہا’’آپ کا سوال خاصا مشکل ہے، لیکن اگر شیکسپئر بھی عبدالغفور زخمی جیسے ڈرامے لکھتا توایک دن وہ بھی زخمی ہوسکتا تھا‘‘ یہ سن کر وہ صاحب بہت خوش ہوئے، اٹھ کر گرمجوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا ’’مجھے عبدالغفور زخمی کہتے ہیں‘‘۔
میرے ایک دوست حالانکہ دمے کے مریض ہیں لیکن وہ گانے کے بہت شوقین ہیں، صرف شوقین ہی نہیں بلکہ انہیں یقین ہے کہ اس وقت برصغیر میں ان کے پائے کا کوئی گلوکار نہیں، ایک روز انہوں نے اس ضمن میں میری رائے بھی طلب کی، پوچھنے لگے، یار دوستی کو ایک طرف رکھ کر سچ سچ بتائو کہ تمہارے نزدیک گائیکی میں میرا کیامقام ہے؟مجھے ان کے برصغیر والے دعوے کا بھی علم تھا اور میں اتنے اچھے دوست سے جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے کہا ’’برصغیر میں جو گلوکار دمے کے مریض ہیں تم ان میںسے سب سے بہتر ہو‘‘۔ اس دن کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
جب ہمارے ہاں انتخابات کا زمانہ آتا ہے (انتخابات اس عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مہذب ممالک میں لوگ اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں اور یوں ایک نمائندہ جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ عمل کبھی کبھی دہرایا جاتا ہے) معاف کیجئے گا بریکٹ والا جملہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا۔میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے ہاں جب انتخابات ہوتے ہیں متذکرہ نوع کی مبالغہ آرائی اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے بلکہ ملکی انتخابات کو تو چھوڑیں چھوٹی چھوٹی انجمنوں کے انتخابات میں بھی القابات کی وہ بھرمار ہوتی ہے کہ پرانی مکتوب نگاری میں استعمال کئے گئے القابات ان کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ انارکلی میں تاجروں کی انجمن کے انتخابات کے موقع پر ایک امیدوار کے نام کے ساتھ ’’فخر ایشیا‘‘ لکھا ہوا پایا گیا۔ ان کے منشور کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کریں گے۔ انتخابات کے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ’’برادرم انارکلی میں لاکھوں لوگ شاپنگ کے لئے آتے ہیں اور ان کے لئے پورے بازار میں کوئی بیت الخلاء نہیں۔ آپ نے اپنے منشور میں بیت الخلاء کی تعمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کر بیٹھے۔‘‘ کہنے لگے ’’بیت الخلاء کی تعمیر کا وعدہ کیسے کرتا وہ تو کامیاب ہونے پر بنانا پڑ جاتا‘‘۔
تو دوستو! معاملہ یہ ہے کہ ہماری قوم مبالغوں اور نعروں کے سہارے جی رہی ہے۔ ہمارے علامہ حضرات کارل مارکس ڈراون، سارتر اور دوسرے مغربی مفکرین کی تھیوریوں اور فلسفوں کا ستیاناس ایک جملے میں کردیتے ہیں۔ نفسیات میں ایک اصطلاح ’’ہیلوسی نیشن‘‘ Hallucination کی ہے جس کا مطلب ’’فریب نظر‘‘ ہےاور جس کا مریض حقائق کی دنیا سے الگ اپنی ایک دنیا اپنی خواہشات کے مطابق بسا لیتا ہے۔ چنانچہ اسے واقعی وہ سب کچھ نظر آرہا ہوتا ہے اور محسوس ہورہا ہوتا ہے جو وہ بیان کرتا ہے ایسے مریض کو حقائق کی دنیا میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔ فریب نظر میں مبتلا ہماری قوم بھی ماضی کی طرح اس وقت بہت مشکل میں ہے ......! ایک بات اور! ہم لوگ اپنے حوالے سے تو بہت خوش فہم ہیں، چنانچہ ہم جس شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں خود کو اس شعبے میں صلاحیت کے حوالے سے خود کو سو میں سے سو نمبر دیتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خود کو سپرمین سمجھتے ہیں ان میں وہ ڈیڑھ پسلی والے حضرات بھی شامل ہیں جو تیز ہوا کے دوران گھر سے نکلیں تو ’’کمر میں کوئی وزنی پتھر باندھ کر نکلتے ہیں اور اپنے گھر کا پورا ایڈریس بھی انہوں نے ایک کاغذ پر لکھ کر جیب میں ڈالا ہوتا ہے کہ اگر وزنی پتھر بھی تیز ہوا کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور وہ انہیں اڑا کر کہیں دور لے جائے تو جن صاحب کو یہ صاحب ملیں وہ اس سپرمین کو ان کے گھر پہنچا کر عنداللہ ماجور ہوں۔ مگر غضب خدا کا یہی لوگ جب پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اسے اتنا نحیف اور لاغر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے خاکم بدہن یہ آخری سانس لے رہا ہو ..... دوستو! پاکستان اب پرانا پاکستان نہیں نیا پاکستان ہے جس کی معیشت دن بدن اسے ترقی یافتہ ملکوں کے قریب لارہی ہے۔ میرا پاکستان اب سیاسی طور پر بھی مستحکم ہے اور عسکری سطح پر بھی یہ ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چھوٹی سوچ سے انسان خود چھوٹا ہوتا ہے، وہ نہیں۔ جسے ہم چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں!



.
تازہ ترین