• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردان یونیورسٹی میں کیا ہوا؟ چند سال کیا کیا ظلم ڈھا گئے! یہ چند سال جو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے وا ہوتے ہوئے دیکھے!
جب بھی تاریخ کے رازوں کے کھوج میں نکلا، آثارِ قدیمہ کی بھول بھلیوں میں راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی، تباہ حال تہذیبوں کی گتھیوں کی رمز ربائی کی تگ و دو میں خود کو گم پایا، ایک نکتے پر آ کر ٹھٹھر گیا کہ آخر اتنی ترقی یافتہ تہذیبیں اور قومیں کیونکر رزقِ خاک ہوئیں۔ اگر نسلِ انسانی ہزاروں یا لاکھوں سال سے اس کرہ ارض پر موجود ہے تو پھر چند صدیوں اور ہزاریوں کے بعد تاریخ انسانی کا تسلسل اچانک ٹوٹ کیوں جاتا ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ ہزاروں یا لاکھوں سال کی تاریخ انسانی ایک زنجیر کی شکل میں ہو جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے جڑی ہو؟ تاریخ کے کواڑ سے جو نکلو تو ہالی وڈ کی سائنس فکشن کی دنیا حاضر۔ تاریخ ماضی کی جھلک دکھاتی ہے تو سائنس فکشن کی دنیا کرہ ارض اور نسلِ انسانی کے مستقبل کے امکانات سے پردے اٹھاتی ہے۔ اور مستقبل کیا ہے؟ دو خوفناک منظر نامے ہیں۔ موسمیاتی تباہی یا پھر ایٹمی تباہی۔
موسم کی شدت پسندی ہے تو وہ قابو سے باہر نظر آ رہی ہے۔ اندرون ملک موسموں کا ذکر ہو تو چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ سردیوں کے موسم میں اسلام آباد جیسے شہر میں پانی کیلئے مظاہرے ہونگے۔ چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ اپریل کے مہینے میں ہیٹ اسٹروک کے بارے میں آگاہی مہم چلانی پڑے گی۔ چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ گرمیوں میں دریا خشک سالی کا ذریعہ بنیں گے اور سردیوں میں فلیش فلڈز کی شکل میں انسانی جانوں کا خراج مانگا کریں گے۔ عالمی سطح پر دیکھیں تو چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ گلیشئرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے، سطح سمندر بڑھنا شروع ہو جائے گی، آلودگی اس خطرناک حد تک بڑھ جائے گی اور اوزون کی لہر اس خطرناک حد تک سکڑ جائے گی۔ سینکڑوں انواع کے جانور اور پرندے ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمیشہ کیلئے معدوم ہو جائیں گے۔ کیا اس بار موسمی شدت پسندی سے تاریخ انسانی کی زنجیر ٹوٹے گی؟
انسانوں کی شدت پسندی ہے تو گویا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اس جن کو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بوتل سے باہر آتے دیکھا ہے۔ وطن عزیز کی بات کریں تو تشدد کسی نہ کسی شکل میں پہلے بھی موجود تھا لیکن ہمارے معاشرے نے بندوق سے کلاشنکوف، کلاشنکوف سے ریموٹ کنٹرول بم، ریموٹ کنٹرول سے خود کش دھماکے کا سفر ہماری آنکھوں سے سامنے طے کیا۔ فرقہ وارانہ اور اقلیتوں کے خلاف تعصب بھی موجود تھا لیکن اس تعصب کو نفرت اور نفرت کو انسانیت سوزسفاکی میں ڈھلتے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ توہم پرستی، علم دشمنی، تنگ نظری کے آثار معاشرتی حاشیے میں ضرور موجود تھے لیکن ان کے قومی دھارے کا حصہ بننے اور قومی بیانئے کا روپ دھارنے کا مشاہدہ بھی ہمارے سامنے کی بات ہے۔ کہیں گم نام گوشوں میں کٹر طبع لوگ انتہا پسندی کو فروغ ضرور دیتے تھے لیکن حکمران طبقات کی طرف سے اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے اسکا استعمال، ریاستی اداروں کے اندر انتہا پسندانہ رجحانات، اور پھر ان ریاستی اداروں کی طرف سے انتہا پسندی کا ایک حربے کے طور پر استعمال ہم نے اپنے سامنے عام ہوتا دیکھا۔ فتوی، تکفیر، توہین کا عمل دخل زیادہ تر مذہبی مباحث اور مذہبی حلقوں تک محدود تھا لیکن انکا سیاسی قوت کے حصول کے ذریعے، ریاستی اداروں کے عوامی حقوق غصب کرنے کے ہتھیار، اور طاقتور سرکاری عہدوں کے حصول، تسلسل اور تحفظ کے آلے کے طور پر استعمال ہماری آنکھوں کے سامنے ہی پروان چڑھا۔ لوگ اغوا پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ریاستی اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر مختلف الرائے شہریوں کا لاپتہ کر دیا جانا اور ان پر غداری، لادینیت، اور توہین مذہب جیسے سنگین الزامات کے بے دریغ استعمال کا چلن ان گنہگار آنکھوں نے اپنے سامنے رواج پاتے دیکھا ہے۔ یونیوسٹیوں میں مختلف الخیال سیاسی اور مذہبی رجحانات پہلے بھی موجود تھے، لیکن ان اختلافات نے ڈنڈے، گولی اور ہجوم کے تشدد اور لاشوں کی بے حرمتی جیسی منازل ان آنکھوں کے سامنے طے کی ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھ لیں تو چند سال پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ امریکہ جو آزادیوں اور انسانی حقوق کا علمبردار تھا، شدت پسندی کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہو گا۔ چند سال پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ مغربی یورپ میں حجاب پر پابندیاں لگائی جا رہی ہونگی، ٹرکوں سے لوگوں کو کچلا جا رہا ہو گا، عبادتگاہوں پر حملے ہونگے۔ چند سال پہلے کوئی کہہ سکتا تھا کہ آدھے مشرق وسطی کو شدت پسندی نگل چکی ہو گی اور بقیہ آدھے مشرقِ وسطی میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہو گی۔ چند سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت جیسے سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لقب پانے والے ملک کی ریاست گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے شریک جرم، گائے کے تحفظ کیلئے مسلمانوں کو سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر قتل کرنے پر اکسانے والی اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور نہتے لوگوں کو سینکڑوں کی تعداد میں بینائی سے محروم کرنے پر فخر کرنے والی ریاست بن جائے گی۔ ایک طرف دنیا بھر میں شدت پسندی کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف ایٹمی ہتھیار اور انکو چلانے والے میزائل خطرناک سے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا اس دفعہ تاریخی زنجیر انسانی شدت پسندی سے ٹوٹے گی؟



.
تازہ ترین