• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا گزشتہ روز پارلیمان کے ایوان بالا سے وفاقی وزراء کی مسلسل غیرحاضری پر غیر معمولی اظہار برہمی بلاشبہ مکمل جواز رکھتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں ہی نے نہیں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکان اور خود قائد ایوان راجہ ظفرالحق تک نے چیئرمین سینیٹ کے موقف کو درست قرار دیا اور وزراء کے طرز عمل میں بہتری کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ جمعہ کے روز چیئرمین سینیٹ نے ایوان میں وزراء کی عدم موجودگی اور اس کے باعث ارکان کے سوالوں کے جواب ملنے میں مسلسل تاخیر پر احتجاجاً کام بند کرکے سرکاری پروٹوکول واپس اور اپنے دورہ ایران کو بھی منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیش کش کرتے ہوئے سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار ضابطہ23 کے تحت ایوان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ قائد ایوان راجہ ظفرالحق، وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار اور دوسری پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں اور ارکان کی جانب سے میاں رضا ربانی کو ایوان میں واپس لانے کی کوششیں رات گئے تک بار آور نہیں ہو سکی تھیں جبکہ وزیراعظم نے اس مسئلے کے حل کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ جمعہ کے اجلاس میں وزراء کی عدم موجودگی کا یہ جواز بھی پیش کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی انہی اوقات میں جاری تھا تاہم یہ بظاہر محض عذر لنگ ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں موجودہ وفاقی حکومت کے وزراء کی عدم دلچسپی معمول کا حصہ ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی پچھلے دنوں اسپیکر ایاز صادق وزراء کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر شدید برہمی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ منگل ہی کو ایوان بالا میں وفاقی وزراء کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سات وزراء نے ایجنڈا مؤخر کرنے کی درخواست کی ہے لہٰذا کیوں نہ ایوان میں ان کا داخلہ بند کر دیا جائے۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے اس پر چیئرمین سینیٹ کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے وزراء کو آخری مہلت دینے کی درخواست کی تھی اور یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں اس سے آگاہ کردیا جائے گا۔ تاہم اس کے بعد بھی وزراء کے طرز عمل میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی جس کے نتیجے میں چیئرمین سینیٹ کو انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ جمہوری نظام میں پارلیمان کی اہمیت کسی وضاحت محتاج نہیں۔ عوام اپنے نمائندے پارلیمنٹ میں اسی لئے بھیجتے ہیں کہ وہ اس منتخب ادارے کی کارروائیوں میں قومی مفادات کے مطابق پالیسیوں کی تشکیل میں شریک ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں وزیراعظم اور وزراء ہی نہیں عام ارکان پارلیمنٹ کی بھی اجلاس سے بلاجواز غیر حاضری کا تصور محال ہے۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب تک یہ جمہوری روایت قائم نہیں ہوسکی ہے لہٰذا بسا اوقات منتخب ایوانوں میں کورم کا پورا ہونا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت کی نسبت یہ مسئلہ موجودہ دور میں زیادہ سنگین نظر آتا ہے۔ وزیراعظم منتخب ایوانوں کے اجلاسوں میں برائے نام ہی شریک ہوتے ہیں جبکہ کسی اہم تر سرکاری مصروفیت کے نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم اور وفاقی وزراء کا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حاضری کو یقینی بنانا ان کا فرض منصبی ہے، اور وزراء ہی نہیں پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کی بھی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اجلاسوں میں شریک ہوں بلکہ قومی پالیسیوں کی تشکیل میں سرگرم حصہ لیں تاکہ عوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ عوام کو بھی انتخابات میں ووٹ دیتے وقت امیدواروں کی پارلیمانی کارکردگی کو ملحوظ رکھنا چاہئے تاکہ ملک میں جمہوریت کی بنیادی روایات مستحکم ہوں۔ چیئرمین سینیٹ نے جمہوری روایات کے استحکام کے لئے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرکے پوری قوم اور پوری دنیا کے سامنے مسئلے کی اہمیت پوری طرح اجاگر کردی ہے تاہم انہیں حکومت کو ایک موقع اور دینا چاہئے تاکہ قوم جمہوریت کے لئے چیئرمین سینیٹ کے اخلاص، اعلیٰ صلاحیتوں اور خدمات سے محروم نہ ہو اور ملک کسی قسم کی بحرانی کیفیت کا شکار نہ ہونے پائے۔

.
تازہ ترین