• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں کے مظالم کا سلسلہ نت نئے انداز میں بڑھتا نظر آرہا ہے۔ نئی دہلی کے حکمران دنیا میں اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے جس جمہوریت کے بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں اس کے مکروہ چہرے کا اندازہ سوشل میڈیا پر آنے والی 15سیکنڈ کی ایک ویڈیو فوٹیج سے لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتی فوجیوں کو خصوصی قوانین کے تحت کشمیریوں کا خون بہانے سمیت ظلم و تعدی کا ہر حربہ استعمال کرنے کی جو اجازت حاصل ہے اس کے جواب میں کشمیری بچے اپنے غصے کا اظہار پتھر اٹھا کر ہی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں قابض بھارتی فوجی اس انداز میں گشت کرتے نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے اپنی گاڑی کے بونٹ پر ایک کشمیری نوجوان کو دونوں ہاتھ اور پیر باندھ کر بٹھا رکھا ہے اور انہیں یہ کہتے ہوئے بھی واضح طور پر سنا جاسکتا ہے کہ پھینکے جانے والے پتھر اس نوجوان کا مقدر بنیں گے ۔ مبصرین کے مطابق یہ وڈیو جس انسانیت سوز طرز عمل کی مظہر ہے وہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران نئی دہلی، تل ابیب گٹھ جوڑ کے تحت عوامی جدوجہد کچلنے کی خصوصی تربیت کا حصہ ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مذکورہ واقعہ بھارتی لوک سبھا کی سری نگر سیٹ کے ضمنی الیکشن کے موقع پر بڈگام میں پیش آیا۔ سری نگر، بڈگام اور گاندربل پر مشتمل اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں دوبارہ ووٹنگ کے موقع پر الیکشن کمیشن کے مطابق صرف دو فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی طرف سے آنے والے بیانات کے بعد اب اپوزیشن کانگریس کے سابق وزیر داخلہ پی کے چدم برم کا یہ ردعمل بھی سامنے آیا ہے کہ ہم کشمیر کو کھو رہے ہیں۔ وادی کی صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ اگرچہ بھارتی فوج ظلم کا ہر حربہ آزمانے پر تلی ہوئی ہے مگر وادی کے گلی کوچوں سے بلند ہونے والے ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعروں کی گونج اور پاکستانی پرچموں کی بہار بڑھتی جارہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں، عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ عوامی ریفرنڈم کی ایک صورت نہیں؟

.
تازہ ترین