• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ خبریں اور واقعات عجیب سے ہوتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس سے لکھنے والے کی مراد مزاح پیدا کرنا ہے یا افسوس کا اظہار کرنا، مثلاً اسی کو لے لیجئے۔ ’’پنجاب میں گدھوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ‘‘ آگے درج ہے کہ رجسٹریشن شروع۔ گدھے مرحلہ وار رجسٹر کئے جائیں گے۔ اس کام کے لئے گدھوں کے باڑے بنائے جائیں گے جہاں صفائی و ستھرائی کا بہترین انتظام ہوگا۔ ماڈرن ٹیکنالوجی مہیا کی جائے گی جس میں موبائل، ایس ایم ایس وغیرہ شامل ہیں۔ اس کام کے لئے 25ہزار سے زائد دیہات کو منتخب کیا جائے گا اور پھر جناب شاید پنجاب بھر میں اس سروس کا جال بچھا دیا جائے گا۔ اس کام کی نگرانی بھی شاید خادم اعلیٰ خود کریں گے۔ ایسے ہی جیسے وہ تعلیمی اداروں خاص طور پر دانش اسکولوں کی نگرانی کررہے ہیں۔
ویسے گدھوں والی خبر کے عین نیچے یہ خبر ہے کہ 13اسکولوں کو دانش اتھارٹی سے واپس لینے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ ان دونوں خبروں میں مشترک کچھ ہے تو شاید ماڈرن مراعات کا وہ سلسلہ جو دانش اسکولوں کی دفعہ بھی کیا گیا تھا کہ مہیا کی جائیں گی۔ اس معاملے میں خیبرپختونخوا بھی پیچھے نہیں ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چین کو سالانہ کوئی ڈھائی لاکھ گدھے فراہم کئے جائیں گے جو یقیناً صحت مند اور تندرست ہوں گے ان کی افزائش کے لئے بھی یقیناً خاص خیال رکھا جائے گا۔
اب ذرا پنجاب حکومت کے زیر انتظام پڑھنے والے سرکاری اسکولوں کے بچوں کے حوالے سے ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کا بھی ذکر کر لیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں میں جانے والے 47فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ پرائمری کے ایک کروڑ 10لاکھ بچوں کو ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے وٹامنز میسر نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے 5سے پندرہ برس کی عمر کے بچوں کے قد ان کی عمر سے کم رہ گئے ہیں۔ ان کے دماغ بھی چھوٹے سائز کے ہیں۔ ان کی سمجھ بوجھ کے بارے میں بھی ماہرین شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔ رہ گئے ان کو پڑھانے والے اساتذہ اور ان کے ذہنی معیار تو اس بارے میں بھی رپورٹس کچھ اچھی نہیں ہیں۔ ان اساتذہ کا جیسا ذہن اور معیار ہے وہ بھی پسماندہ ترین ممالک سے کم تر ہے۔ اب اس حوالے سے گدھوں کے بارے میں شاندار اسکیمیں بنانے والوں سے شاید لوگ یہی درخواست کردیں کہ جناب ہمیں ویسی ہی سہولتیں فراہم کردیں جیسی گدھوں کو دی جارہی ہیں۔ ان کی افزائش کے لئے تو باڑے بنائے جارہے ہیں، اعلیٰ ترین چارے کا انتظام کیا جارہا ہے، موبائل کے ذریعے نیٹ ورک قائم کر کے ان کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ رپورٹس مرتب کی جائیں گی شاید اس لئے کہ ان کو ایکسپورٹ کرنا ہے۔ ہمیں بھی کچھ ایسی ہی شے سمجھ لیں اور ہمارے لئے شاید ان گدھوں کا چارہ ہی فراہم کردیا جائے تو ہم لوگوں کے بچے جسمانی اور ذہنی طور پر پسماندہ نہ رہ جائیں۔
میں یہیں تک لکھ پایاکہ میری نظر اس خبر پر جا پڑی جس میں غربت کے ہاتھوں ماں نے دو بچوں کو قتل کر کے خودکشی کرلی ۔ یہ بھی خادم اعلیٰ کے پنجاب سے ہی تعلق رکھتی تھی کہتے ہیں لو گ خودکشی اور اپنے بچوں کا قتل اس وقت کرتے ہیں جب انہیں ان کے مستقبل کے حوالے سے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ شاید خادم اعلیٰ اگر ان بچوں کے والدین کویقین دلا دیتے کہ وہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا صوبے کے گدھوں کے حوالے سے ان کا کرنے کا ارادہ ہے تو وہ ماں اور اس کے بچے بچ جاتے۔میں نے ذرا پہلے سرکاری اسکولوں کے ان ہزاروں لاکھوں بے سہارا بچوں کا ذکر کیا ہے بے سہارا اس لئے کہ ان کے لئے شاید کسی اور خادم اعلیٰ کی ضرورت ہوگی جو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کس قدر تاریک ہے اس طرح کے فالتو ترین اسکولوں اور پھر سرکاری سرپرستی یا ایک مخصوص سیاسی جماعت کے زیر اثر چلنے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جب یہ بچے اپنے تئیں پڑھ لکھ کر فارغ ہوں گے تو ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ یہ جیسے اس وقت ڈگریاں اٹھائے خوار پھرتے ہیں آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ خوار ہوں گے۔ اس میں قصور ان کا بھی ہے اگر بلوچستان کے وہ مینگل صاحب جنہوں نے 46بچے پیدا کئے ہیں ایسے لوگ اسی رفتار سے آبادی میں اضافے کا باعث بنتے رہیں گے تو وسائل کو آسمان سے اترنے سے رہے۔ انہیں اسی طرح کے اندھیروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں بھی اس معاملے میں ہندوستان کی ریاست آسام ایسی پابندیاں لگانی پڑیں گی جس میں وہ تمام لوگ جن کے بچے تین سے زائد ہوں گے سرکاری نوکری کے لئے نااہل قرار پائیں گے۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے پیداہونے والے لوگوں میں نالائقی کے ساتھ اندھی تقلید بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح کے لوگ مشال خان کے قتل کا باعث بنتے ہیں جو کسی بھی خبر کی درستی کے لئے استدلالی اپروچ اپنانے کے بجائے سنی سنائی پر یقین کرتے ہوئے اس قتل میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ خواہش تو بہت رکھتے ہیں کہ دنیا پر غلبہ پا لیں گے مگر بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح صرف گڈریئے کی ایک چھڑی کی وجہ سے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ یہ کچھ انوینٹ نہیں کرتے اور معاشرے پر بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں۔
کالم کی دم:گدھوں کے اس ریوڑ میں ایک صاحب جن کا تعلق عرب دنیا سے ہے، کا آجکل اس لحاظ سے بڑا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ زمین کے گول نہیں بلکہ چپٹا ہونے پر لکھا ہے۔
آخر میں ایک سوال بھی ہے غریبوں کے لئے کام کرنے والے خود کیوں اتنے امیر ہو جاتے ہیں۔



.
تازہ ترین