• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں احتجاجی سیاست کا آغاز کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ عوام کے مسائل تو پورے ملک میں ہیں ۔ پیپلز پارٹی صرف سندھ میں اس پالیسی پر کیوں گامزن ہے حالانکہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے؟ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کے نئے کنکشنز نہ ملنے اور پانی کی قلت پر وفاقی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے سندھ بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ بدین میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے سے اس تحریک کا آغاز ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاق کو متنبہ کیا ہے کہ اگر سوئی سدرن گیس کمپنی نے نوری آباد پلانٹ میں واقع 100 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کو اس ہفتے گیس فراہم نہ کی تو سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن بند کر دی جائے گی اور کمپنی کے ہیڈ آفس پر قبضہ کر لیا جائے گا ۔
ملک کی موجودہ بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کو دیکھنا چاہئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سندھ میں جن ایشوز پر پیپلز پارٹی احتجاجی سیاست کررہی ہے ، وہ ایشوز اپنی جگہ موجود ہیں ۔ پورے سندھ خصوصاً دیہی علاقوں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ، جس نے سندھ کی معیشت اور سماج کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن یہ لوڈشیڈنگ صرف سندھ میں نہیں ہے بلکہ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب میں بھی بہت کم بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ وہاں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم و بیش سندھ کے برابر ہے ۔ پیپلز پارٹی ایک وفاقی سیاسی جماعت ہے ۔ اسے پورے ملک میں احتجاج کی حکمت عملی کا اعلان کرنا چاہئے تھا ۔ وسطٰی پنجاب کے چند بڑے شہروں کے سوا باقی چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہی علاقوں میں بھی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، شمالی علاقہ جات میں موسم ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ زیادہ محسوس نہیں ہوتی لیکن وہاں بھی لوگوں کی زندگی کسی حد تک متاثر ہوتی ہے ۔ اس طرح پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ کے علاوہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو بھی تحفظات ہیں ۔ بلوچستان تو اس بات پر احتجاج کر رہا ہے کہ سندھ اس کا پانی روک رہا ہے ۔
اسی طرح گیس کے نئے کنکشنز کے حوالے سے سندھ کے علاوہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی سراپا احتجاج ہیں ۔ اگرچہ سندھ گیس کی مجموعی ملکی پیداوار کا 70فیصد گیس پیدا کرتا ہے لیکن سندھ کی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی اپنی گیس کی پیداوار سے کم گیس استعمال کرتے ہیں۔ انہیں بھی گیس کے نئے کنکشنز نہیں مل رہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئین کے آرٹیکل ۔ 158 کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے ، اس کے درست ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ آئین میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ جس علاقے یا صوبے میں گیس پیدا ہوتی ہے ، اس علاقے اور صوبے کا گیس کے استعمال پر پہلا حق ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 172 (3 ) میں تیل ، گیس اور دیگر قدرتی و معدنی وسائل میں صوبوں کو 50 فیصد ملکیت دی گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگ کوئی بھی بات غلط نہیں کر رہے لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پورے ملک کا ہے اور پانی کی تقسیم اور گیس کی فراہمی کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان بھی سندھ کے ہم نوا ہیں۔ پھر پیپلز پارٹی پورے ملک کے عوام کی آواز کیوں نہیں بنی اور اس نے صرف سندھ میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے ؟
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی احتجاج پر مبنی اور جارحانہ سیاست آئندہ عام انتخابات کے لئے اس کی سیاسی مہم کا حصہ ہے ۔ وہ اپنے سیاسی قلعے سندھ میں بہت زیادہ توجہ دینا چاہتی ہے اور وہاں اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے لیکن یہ دلیل کمزور ہے کیونکہ دوسرے صوبوں میں اس طرح کی جارحانہ سیاسی مہم پیپلز پارٹی کیوں نہیں چلانا چاہتی یا اسے کسی نے روکا ہے ؟ اور پیپلز پارٹی دیگر صوبوں میں سیاسی گرفت مضبوط کیوں نہیں کرنا چاہتی ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کے قلعہ بند ہونے کے دیگر اسباب ہوسکتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں نواب لغاری ، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی پراسرار گمشدگی اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کے جے آئی ٹی میں بیانات بھی پیپلز پارٹی کی اس حکمت عملی کا ایک سبب ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں۔ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ تقریباً 8 ماہ پہلے جمع کرا دی گئی تھی اور اسی وقت ہی جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ عزیر بلوچ کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔اس سفارش پر کارروائی اب ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کے تین قریبی ساتھیوں کی ’’ گمشدگی ‘‘ کے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تینوں رہنما کچھ اداروں کی تحویل میں ہیں ۔ پیپلز پارٹی جو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں سیاسی پیش رفت میں مصروف تھی ، ان واقعات کے بعد سندھ میں جارحانہ سیاست کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگئی ہے ۔ عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی میں دیئے گئے اپنے بیان میں پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنماؤں سے رابطوں کا اعتراف کیا ہے ۔ لاپتہ ہونے والے آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں سے بھی کچھ بیانات حاصل کئے جاسکتے ہیں اور ان بیانات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ’’ سندھ کارڈ ‘‘ پر واپس آ رہی ہے ، جس کا مقصد یہ باور کرانا ہو گا کہ اگر ان کی مخالف قوتوں کے پاس ایک آپشن ہے تو پیپلز پارٹی کے پاس دوسرا آپشن ہے ۔ وہ سندھ میں بہت مضبوط ہے ۔ ممکن ہے کہ دونوں طرف سے اپنے اپنے کارڈ ز کھیلنے کی نوبت نہ آئے۔ دونوں طرف سے کارڈز کھیلنے کا عندیہ دیا جا رہاہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی اس پوزیشن پر آ گئی ہے کہ وہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں پیش قدمی کے ساتھ ساتھ سندھی قوم پرستوں کا بیانیہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔



.
تازہ ترین