• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی معاشرے کی تشکیل بطور جدید انسانی معاشرہ، اللہ تعالیٰ کی انسان کو بیش بہا عنایات کے انسانی استعمال کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے بے حد و حساب اور لا متناہی رحم اور رحمتوں کے سائے میں انسان کو تین اعلیٰ ترین شرف عطا کرکے انسان کو (بظاہر) تن تنہا اور بے یارومددگار اس کرہ بیش بہا پر اتارا، عقل سلیم بے پناہ ابلاغی صلاحیت اور انسانی جسم کی ساخت، وہ تین ارفع انسانی صلاحیتیں ہیں جن سے انسان محض اللہ کی مخلوق نہیں بلکہ اشرف المخلوقات بنا تو اس نے عقل سلیم سے بہت کچھ بنایا بھی ، بنا کر اسے عام بھی کیا جسے عوام الناس نے اپنی روزمرہ زندگی میں اختیار کرکے ’’انسانی معاشرے‘‘ جیسا حیرت انگیز شاہکار کو تشکیل دیا، گویا جیسے خالق انسان نے انسانی عقل سے بعید بے پناہ حسین و جمیل اور بے حد و حساب کائنات تشکیل دی، اس کی افضل ترین مخلوق حضرت انسان نے بھی اپنے خالق کی عطا کردہ متذکرہ تین اعلیٰ ترین تخلیقی صلاحیتوں کے افضل ترین استعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ ہی اللہ کی اشرف مخلوق ہے۔
جس طرح ’’جدید انسانی معاشرہ ‘‘ انسان میں موجود ان تینوںامتیازی (بمقابلہ دوسری تمام مخلوق کے) صلاحیتوں کا شاہکار ہے، ادب اور صحافت انسانی معاشرے کے دو ایسے اوصاف ہیں جو انسانی معاشرے کی تہذیب سازی کا اسی طرح مسلسل ذریعہ بن گئے ،جیسے پانی خوراک پیدا کرنے کا، گویا انسانی معاشرتی تشکیل ہی نہیں پہلو بہ پہلو اس کی تہذیب سازی میں ادب و صحافت کا کردار سب سے غالب و مسلسل رہا اور اس کا لامتناہی ہونا واضح ہے ۔ اسی لئے انسانی معاشروں میں ادب کی پذیرائی ہوئی اور جدید زمانے میں ظہور صحافت کے انقلاب آفریں پیشے (صحافت) کے بعد جنہوں نے اس کی جلا بخشی کو ممکن بناتے ہوئے اسے اختیار کیا وہ دوسرے ایسے معاشروں کے مقابل کہیں زیادہ تہذیب وترقی یافتہ ہیں جو انسانی ابلاغ کی اس نعمت بے پناہ سے محروم رہے ہیں۔ادب اور صحافت ہر دو انسان کی اعلیٰ ترین ابلاغی صلاحیت کے منظم اور مسلسل اظہار کا باکمال ذریعہ جنہیں انسان نے اپنی خداداد اعلیٰ ترین ابلاغی صلاحیتوں سے تشکیل دیا۔
پاکستان دنیا کے ان آزاد جمہوری مزاج ممالک میں شامل ہے جس کی تشکیل میں برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت قلم و کلام نے سب سے اہم اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ادب اور خصوصاً وہ صحافت جس نے ’’پارٹیشن آف انڈیا ‘‘ اور مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن کے قیام جیسا عظیم کردار ادا کیا، اس کا آج بنائے پاکستان میں کیا کردار او رتعلق ہے؟
پاکستان اپنے قیام کے بعد جن عظیم المیوں اور بحرانوں سے دوچار ہوا اور قوم آج 70دہائیوں کے بعد بھی اپنی حقیقی آزادی و خودمختاری، استحکام و خوشحالی، یقین و محکم اور اتحاد و یکجہتی سے محروم ہے، اس کی بڑی اور بہت توجہ طلب وجہ ہمارے معاشرے میں آج ادب اور صحافت کے کردار کے حوالے سے بھی بہت زیادہ ہے۔
یہ موضوع جتنا خشک ہے، اتنا ہی اہم اور وقت کی ضرورت ہے، جسے یقیناً ہماری دانش گاہوں اور دانشوروں نے ہی ایڈریس کرنا ہے، لیکن سلگتی بھڑکتی بریکنگ نیوز، چٹخارے دار سیاسی بیان بازی اور بدزبانی تک پہنچے ہوئے ٹاک شوز کے نشے میں مبتلا معاشرے میں اس موضوع کی کنڈی کھولنا کوئی آسان نہیں۔ بہرحال یہ کھل گئی۔ اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے وفاقی دارالحکومت میں بہار کے جوبن میں یونیورسٹی میں ’’لٹریچر کارنیوال 17‘‘ کا میلہ تو سجایا ہی، اس کے متوازی،کیمپس کے ٹھنڈے ہالوں اور آڈیٹوریم میں صحافیوں اور ادیبوں کو جمع کر گئے، ایسے خشک لیکن اہم ترین موضوعات پر دلچسپی پیدا کرنےوالے منظم مکالمے کا بھی خوب اہتمام کیا۔ آج کا ’’آئین نو‘‘ اسی تناظر میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے برپا کئے اس تین روزہ علم و دانش اور ادب و صحافت کے دوران میں مہمان تو ایچ ای سی کا تھا، لیکن ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کمیشن کے تین روزہ پیشہ ورانہ مشقت کیمپ کے باوجود اپنی میزبانی بڑی خوبصورتی سے منوا لی اور میں ان کے گیسٹ ہائوس میں دو روز کا اور ایک علمی سیشن کا مہمان بن گیا۔ موضوع زیر بحث یہی تھا ’’ادب اور صحافت‘‘ بڑے محترم سینئر ادیب اور صحافیوں نے اس سیشن میں شرکت کی اور پاکستان میں ادب کے اجڑنے کا ماتم کیا۔ علامت کے طورپر دو نسلوں کو بڑی بھاری تعداد میں اپنا قاری بنانے والے جناب شکیل عادل زادہ موجود تھے، جن کے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈائجسٹ (سب رنگ) کو مسیحائی بخشنے کا علم رئوف کلاسرا نے اٹھایا ہوا ہے۔ اس نشست میں جہاں ان کا اور یاسر پیرزادہ کا نوٹس یہ تھا کہ صحافت لسانی آلودگی میںمبتلا ہورہی ہے اور اس کی شفافیت کے لئے ادیب کالم نگاروں کی معاونت ضروری اور غنیمت ہے۔ کلاسرا صاحب کتاب اور معاشرے میں دوری کے رجحان پر افسردہ تھے اور صحافیوں کو کتاب بینی کا مشورہ دیتے رہے۔ دوسری جانب سہیل وڑائچ اور ناچیز نے ادیبوں کے ادب سے دور ہو کر خود کو صحافت کی چکا چوند کا اسیر ہو کر ادب کے اجڑے جانے کا نوٹس شرکائے محفل کے سامنے پیش کیا۔
امرواقعہ یہی ہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں ادب و صحافت کا ایک مضبوط تعلق بھی رہا ہے۔ قبل از قیام پاکستان تو برصغیر کے جو نامور ادیب اپنی تخلیقات سے ہندوستان کے مسلم معاشرے کی تہذیب سازی میںپیش پیش تھے انہوں نے اپنے اعلیٰ ابلاغی اوصاف کا رخ صحافت کی طرف موڑا تو وہ سیاسی دانشور کی سی شخصیت میں ڈھل گئے اور ان کا ابلاغی کردار بے پناہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ یہ بھی درست نہیں کہ ادیبوں نے ہی کوئی صحافتی زبان تخلیق کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ادب و شاعری اور ادیب و شاعر تو قدیم انسانی معاشرے میں انسانی ابلاغی صلاحیتوں کے قدرتی اور قدیم رجحان کے اظہار کے طور پر موجود رہے۔ صحافت ایک انقلاب آفریں اور انسانی تہذیبی عمل میں جدید ترین پیشہ ہے۔ ادیب اور شاعر اپنے طور ہی اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے تخلیق کا پیکر ہوتا ہے اور ان کی تخلیقات معاشرے کی تہذیب سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں، آج صحافت ایک ڈسپلن (باڈی آف نالج) کے تابع ہے، جیسا کہ ہر پیشہ ایک مخصوص علم کے تابع ہوتا ہے اس علم کی پیروی سے مطلوب اور معیاری عوامی خدمت کا اہتمام ہوتا ہے۔ ادیب اور شاعر، افسانہ نگار و ڈرامہ نگار فقط اپنے میلانات و رجحان اور قدرتی صلاحیت پر بھروسہ کرکے تخلیق کرتا ہے۔ صحافی پیشہ ور، ایک مخصوص علمی پس منظر کا حامل، ادارہ سازی کی پیداوار اور ادارے سے ایک پیشہ ور جماعت کے سرگرم رکن کے طور پر منسلک ہے جس نے روز بروز اپنے پیشے کی پیروی کرتے ہوئے خبر، رائے، تجزیہ،فیچر، کالم تیار کرنا ہے اور اسی لمحے یا روز اسے عوام الناس تک پہنچانے کا اہتمام کرنا ہے۔ ایک ادیب و شاعر اور افسانہ نگار یہ سکت پیدا نہیں کرسکتا۔ قیام پاکستان کے پہلے چار پانچ عشروں میں ادارہ جنگ نے صحافت کو جلا بخشنے اور اس کے ساتھ ساتھ ادب کی سرپرستی بذریعہ صحافت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے بانی ادارہ میر خلیل الرحمٰن کی خدمات ہماری ادبی و صحافتی تاریخ میں اتنہائی قابل قدر ہیں، جنہوں نے ارتقاء پذیر صحافت کو موجود پوٹینشل کی حد تک جلا بخشنے کے لئے ٹیکنالوجی سے معاونت کی۔ آج صحافت کا مثبت اثر ہمارے ریاستی اداروں کی بڑی خامیوں کی موجودگی میںجمہوری عمل کو تیز تر کر رہا ہے، لیکن پاکستان میں ادب کی تشویشناک صورت یہ ہے کہ ادیب و شاعر اپنی ڈومین سے نکل کر صحافی بننے اور خود کو صحافی منوانے کے لئے بے چین ہیں ایسے میں وہ خود ہی اپنی تخلیقی دنیا ادب و شاعری اور دوسری اصناف سے دور ہو کر آدھا تیتر آدھا بٹیر بنتے جا رہے ہیں، جبکہ دونوں کی خصوصیات پر مشتمل کوئی پرندہ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً پاکستانی صحافت کے تیز تر ارتقاء میں ادب بحرانی کیفیت میں ہے۔ غالباً اس کی ایک بڑی وجہ صحافت کی معاشرے خصوصی جمہوری میں بڑھتی اہمیت ہے لیکن اصل چیلنج یہ ہی ہے کہ ادیب اور شاعر اپنی تخلیقات کی جلا بخشی کے لئے کالم نگاری کے سہارے کی بجائے اپنی زور دار تخلیقات کو تہذیب سازی کا ذریعہ بنائیں۔ ان کا یہ کردار کوئی صحافت سے کم نہ ہوگا۔ پاکستان میں ادب کے اجڑتے ماحول میں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ وی سی پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’ادب اور صحافت‘‘ کی نشست میں ہونے والے اہم مکالمے کو ریگولر فیچر بنا کر اپنی یونیورسٹی میں ’’ادب و صحافت‘‘ کا مکالمہ جاری رکھیں گے ایسے کہ پاکستانی ادب کی سمت بھی درست ہو اور فروغ پذیر صحافت کی پروفیشنل گرومنگ کے لئے علمی اور غیر علمی سامان بھی پیدا ہو۔



.
تازہ ترین