• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے سربراہ، عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’ایک قوم بنانے کے لئے ہمیں تین مختلف نظام تعلیم ختم کرنا ہوں گے۔‘‘ جہاں اس بیان سے قومی تفریق و انتشار کے خاتمے کے لئے ایک قابل عمل راہ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وہاں اس سےیہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ دیو ہیکل بنیادی مسائل پر خان صاحب کی کتنی گہری نظر ہے۔
خیبر پختونخوا میں تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے کانفرنس میں عمران خان کا کہنا تھا ’’22لاکھ بچے مذہبی مدرسوں 8لاکھ انگلش میڈیم اورسوا تین کروڑ بچے سرکاری اسکول میں پڑھ رہے ہیں جبکہ سوا دو کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ انہوں نے پختونخوا کے آئندہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 139ارب روپے کرنے کا اعلان کیا ‘‘۔ا ب ہمارے ہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر کوئی مخالف مثبت بات بھی کہہ دے تو اسے عوام کی نظر میں منفی ظاہر کرنے کے لئے فوری طورپر گولہ باری شروع کردی جاتی ہے، یہی وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کیا، فرمایا ’’پورے ملک کا ٹھیکہ چھوڑیں، عمران خان بتائیں انہوں نے خیبر پختونخوا میں اسکولوں کی بہتری کے لئے کیا کیا؟ آپ پختونخوا کے اسکولوں میں ایک بھی نیا کلاس روم بنا ہوا دکھادیں،تین ہزار سے زائد اسکولوں میں واش روم نہیں ہے۔ دس ہزار اسکول بجلی کے بغیر ہیں، سات ہزار سے زائد اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے، شکر ہے پونے چار سال بعدسہی تعلیم عمران خان کی ترجیح توبنی ہے۔ اب اس ترجیح کو کارکردگی میں بدلیں۔‘‘ خیر محترمہ کا استدلال وزنی بھی ہے کہ صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوتا ،عمل بھی کرکے دکھایا جائے۔ لیکن یہ فارمولا البتہ صرف عمران خان کے لئے نہیں، سابقہ و موجودہ تمام رہنما اس پیمانے پر ہی پرکھے جانے چاہئیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں تین نہیں چار بلکہ انواع و اقسام کے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔ سرکاری اسکول، انگریزی میڈیم ایک متوسط طبقے کے لئے اور دوسرا اشرافیہ کے لئے۔کیمبرج، اے او لیول، مدرسے میں بھی ایک سے زائد قسم کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنے مدرسے میں اپنے فرقے و مسلک کے مطابق ہی نصاب ترتیب دیا ہے۔ ان کے بورڈز یعنی وفاق المدارس بھی مسلکی اعتبار سے علیحدہ ہیں۔ پھر زیادہ تر مدرسوں میں تو سائنسی تعلیم کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ جبکہ ایک تعداد نے اب زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر یا اسی طرح کے سائنسی مضامین یعنی دنیا کو بھی نصاب میں شامل کرلیا ہے۔اب جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بچے مذہبی مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔ دیہات اور کچی آبادیوں میں دس بیس قدم کے فاصلے پر مدرسے بنے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل لاکھوں بچے نہ تو ڈاکٹر بن سکتے ہیں، نہ انجینئر، نہ بنکار اور نہ ہی سائنسدان۔ زیادہ سے زیادہ موذن، مولوی یا پھر میٹرک، انٹر وغیرہ کے مساوی سند ہونے کے باوصف کسی ادارے میں نچلے گریڈ کی ملازمت اختیار کرسکتے ہیں۔ یوں ایک بڑی تعداد ترقی کی دوڑ سے باہر اور اپنے مسائل ہی میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اصلاحِ معاشرے کی صورت حال جوں کی توں ہے، اور اس حوالے سے سماج میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔اجتماعیت کی بجائے فرقہ واریت ہی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ بالکل یہی صورت حال سرکاری تعلیمی اداروں اور غریب بستیوں میں قائم نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولوں کی ہے۔ جن کا ملک و ملت کے کارآمد افراد بنانے میں کوئی کردار ہی نہیں ۔ دوسری طرف ملک کی بھاگ دوڑ، اہم مناصب وادارے جن کے کنٹرول میں ہیں یہ وہ اشرافیہ ہیں جو جن تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ایک عام پاکستانی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ نتیجتاً جو بچے مدرسوں سے فارغ ہوتے ہیں، دنیا بیزاری سے ان کی ذہن سازی ہوچکی ہوتی ہے اور جو اعلیٰ انگریزی تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں، چونکہ ان کے تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ لا محالہ وہ دنیا ہی کو زندگی کا اصل مقصد جان کر عملی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر ایک طبقہ دنیا سے بیزار تو دوسرا دین سے...یوں قومی یکجہتی،ملکی و عوامی ترقی کی منزل کیسے حاصل کی جاسکے گی؟ جناب خورشید ندیم صاحب اپنے ایک کالم میں اس سلسلے میں فکر انگیز حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں’’دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم دور غلامی کی یادگار ہے۔جب زمام کار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی،یہ دوئی نہیں تھی۔اب ریاست دینی تعلیم سے لاتعلق ہو گئی اور سماج نے اپنے وسائل سے مدرسے کو زندہ رکھا۔جہاں وسائل کا عمل دخل ہو، وہاں مفادات کا وجود میں آنا ناگزیرہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدرسہ ذریعہ معاش بن گیا، اس سے ’’انٹرسٹ گروپ‘‘ وجود میں آئے ، مفادات کا تصادم اس کا ناگزیر نتیجہ تھا۔اب مسلح دستوں کے ساتھ مدارس پر قبضے ہوتے ہیں۔ایک مدرسہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے اور مہتمم اس کا سربراہ۔ بلاشبہ نیک اور بے لوث افراد کی بھی کمی نہیں، لیکن بلا مبالغہ یہ اب اربوں کا کاروبا ربن چکا ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ متفرق نظام ہائے تعلیمات جہاں وحدت کی نفی کرتے ہیں وہاں یہ ملکی اور عوامی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔تاہم اگر غور کیا جائے تو یہ سب کچھ یہاں کےحکمران طبقات ،اشرافیہ اور بالادست طبقات کی ملی بھگت ہی کا نتیجہ ہے۔متفرق وطبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے سے ظاہر ہے انہی کے مفادات پر کاری ضرب پڑیگی، لہذا وہ کیوں چاہیں گےکہ کسی غریب، محنت کش، کسان، عام مولوی،استاد اور ہنرمند کا بچہ ان کی ہم سری کرے۔لارڈ میکالے نےنظام تعلیم طبقاتی بنیاد پر استوار ہی اس خاطر کیا تھا،کہ رعایا ،رعایا رہے، اور حکمران وبالادست طبقات ہی سیاہ و سپید کے مالک بنے رہیں۔عرض یہ ہے کہ عمران خان کی تعلیمی اصلاحات کا تمسخر اڑانے کی بجائے سوال یہ ہے کہ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ قرآن عظیم کی روشنی میں سورج و چاند اور بحروبر کو مسخر کرنے کی خاطر جدید تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنایاجائے، اورقران عظیم کو اس سلسلےمیں مرتب کئے جانے والے نصاب کا لازمی اولین حصہ بناتے ہوئے ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔یعنی دین و دنیا کے تقاضوںکے مطابق ایسا نظام تعلیم اس مملکت کیلئے ناگزیر ہے ۔جس سے آخرت کی دنیا بھی ہمارے ہاتھ آئے اور جس دنیا میں ہم آج رہ رہے ہیں، نہ تو اس میں کسی کے غلام ہوں، اور نہ ہی کسی کے محتاج...اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ جس کو آپ صبح ، دوپہر ، شام گالیاں دیتے ہوں، پھر اُنہی کے سامنے کاسہ گدائی لئے کھڑے ہوجائیں۔اگر ہم ایک سر درد کی گولی سے لیکر ایک بلب تک نہیں بنا سکتے ، تو وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدیدتعلیم’ کفار‘ کے حوالے کردیا ہے۔چلتے چلتے ہم ملتمس ہیں کہ محترمہ مریم اورنگ زیب صاحبہ! عمران خان کی بات اپنی جگہ ، لیکن جیسا کہ آپ نے عمران خان کو مشورہ دیا ہےکہ وہ اپنے قول کا ثبوت عمل سے دیں، تو کیا آپ ایسے کسی عمل کی قوت نہیں رکھتیں؟




.
تازہ ترین