• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مُلک کی ترقی میں سائنس و ٹیکنالوجی بتدریج زیادہ اور اہم رول اَدا کرنے لگے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں لیکن اس میں بدقسمتی سے خواتین سائنسدانوں اور انجینئروں نے بہت کم حصّہ لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھانے میں خواتین اور حضرات کو برابر کا حصّہ لینا چاہئے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتنا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ترقیاتی پروگرام میں خواتین کی شرکت بہت کم ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی شرح بمشکل 35فیصد ہے اور اس میں خواتین کی شرح بہت کم ہے۔ اِن حالات میں ہمیں اُن سے بہت کم اُمید رکھنا پڑتی ہے۔ پوری دنیا میں کام کرنے والی خواتین کی شرح بہت کم ہے صرف بعض ممالک میں جہاں آبادی کم ہے وہاں خواتین کو مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ چیز میںنے بلجیم میں دیکھی ہے جہاں خواتین کی اکثریت ہر سطح پر کام کر تی نظر آتی ہیں اور اسلئے ان کی رہائش کا معیار دوسرے ممالک سے بلندہے۔ اس کا سبب کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی ہر شعبہ میں کمی نظر آتی ہے۔ مندرجہ ذیل وجوہات قابل غور ہیں:
(1)کسی خاص پیشہ کو بغیر کسی تعصب و ہچکچاہٹ کے قبول کرنا۔
(2)پیشہ کے چنائو کے لئے والدین کا دبائو (مثلاً ڈاکٹر بنووغیرہ)۔
(3)امتیازی سلوک،تعلیم کے دوران اور پھر کام کے دوران۔
(4)ملازمتوں کے بہت کم مواقع۔
(5)پہلے سے کام کرنی والی خواتین کی مدد اور ہمّت افزائی۔
یہ تمام فیکٹرز بہت اہم ہیں اور ان پر ہمیں فوراً مکمل توجہ دینا چاہئے۔
کچھ کم عقل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا دراصل ضائع کرنا ہے کیونکہ وہ پڑھنے کے فوراً بعد شادی کرلیتی ہیں اور اپنا پیشہ چھوڑ دیتی ہیں۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ لڑکوں پر یہ پیسہ خرچ کیا جائے تاکہ وہ ڈگری لینے کے بعد ملک کی خدمت کرسکیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لڑکی یا خاتون ہونا کوئی جرم نہیں ہے اور یہ باآسانی سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس دور جدید میں انجینئرنگ کے پیشے کا یہ مطلب نہیںکہ لڑکیاں فیکٹریوں میں کام کریں اور ہاتھوں اور چہروں کو گندہ کریں۔ آجکل لاتعداد ایسے پیشے ہیں کہ جن میں لڑکیاں، خواتین گھر بیٹھ کر کام کرسکتی ہیں اس میں کمپیوٹر سائنس، الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل ڈیزائن، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی قابل ذکر ہیں۔ اب مندرجہ بالا میدان میں کام کے علاوہ اور بہت سے میدان ہیں جن میں لڑکیاں، خواتین بہ آسانی کام کرسکتی ہیں اور ان کے علاوہ وہ اپنی مرضی کے پیشہ میں کام کرسکتی ہیں اور ملازمت اور گھریلو زندگی میں توازن قائم رکھ سکتی ہیں۔
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اس کا تیسری دنیا کے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ ناقابل قبول بات ہے کہ آبادی کا آدھا حصّہ (یعنی خواتین) ملکی ترقی کے کاموں سے دور رہے۔ یہاںبات خود کی پسند کی نہیں ہے، معاشی حالات اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ خواتین فوراً سائنٹیفک اور ٹیکنیکل ملازمتوں میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ اس وقت جو کچھ وہ کررہی ہیں وہ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی عکاسی نہیں کرتا اور ٹیکنیکل اور سائنٹیفک میدان میں ابھی ان کے لئے بہت مواقع ہیں اور وہ ہر حالت میں مردوں سے مقابلہ کرسکتی ہیں بلکہ ان سے بہتر کام کرسکتی ہیں۔ ملک کے حکمرانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو خواتین کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو وظائف وغیرہ دے کر ان کی ہمّت افزائی کریں کہ وہ ٹیکنیکل تعلیم حاصل کریں، لڑکیوں اور خواتین کو خود کو بھی اپنے تجربے اور قابلیت کی بنیاد پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ اچھی جگہ ملازمت ملے جہاں وہ اپنی صلاحیت دکھا سکیں۔ ہمارا مذہب اور ثقافت خود اسکے حامی ہیں کہ خواتین ہر میدان میں اپنی کارکردگی دکھائیں اور حصّہ لیں۔
دیکھئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے انسانیت کی ترقی میں رول (کردار) کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل تاریخ سائنسی ترقی کا دوسرا نام ہے اور تاریخ بتلاتی ہے کہ انسان نے کس طرح کن کن میدانوں میں ترقی کی ہے اور جہالت کے زمانے سے کس طرح انسان نے ترقی کی ہے اور صنعتی انقلاب کے ذریعے جدید اور ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا ہے۔ اس تمام دور میں صرف سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہی اس ترقی کی راہ دکھا ئی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی ہونہار، قابل خواتین کی صلاحیت سے استفادہ نہیں کررہے جبکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ ملک کی ترقی میںسائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کو اہمیت نہیں دی اور نہ ہی خواتین کو اس اہم میدان میں کام کرنے کی تلقین کی یا ہمّت افزائی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں نے صرف دکھاوے کی خاطر اور عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ناموں کا استعمال کیا مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اور یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم ابھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے پھل تلاش کررہے ہیں جو ہماری پہنچ سے بہت دور ہیں۔ یہ قدرت کا عتاب ہے کہ اس قدر قدرتی وسائل اور مال و دولت کے باوجود ہم پسماندہ ہیں اور ہماری بات میں کچھ وزن نہیں۔ نہایت پسماندہ تعلیمی نظام، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لئے آلات و سہولتیں ناپید ہیں، اچھی تعلیم کا فقدان، ملکی اہم اداروں کے دیوالیہ وغیرہ نے ہماری معاشی حالت کا دیوالیہ نکال دیا ہے اور خیرات اور قرض پر گزارہ کررہے ہیں۔ اگر ہم کچھ عقل و فہم سے کام لیتے اور خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرتے تو ہم یقینا ترقی یافتہ ہوجاتے۔
خواتین کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی دلانے میں صنعتکار بہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ ملک میں ہزاروں صنعتیں ہیں، ہر قسم کی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں کہ جہاں لڑکیاں ؍خواتین بہت آسانی سے اعلیٰ کارکردگی دکھا سکتی ہیں اوربہ آسانی کام کرسکتی ہیں مثلاً سافٹ ویئر، پروسیس ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل انڈسٹری وغیرہ۔ اس کے علاوہ فنی مضامین پڑھانے کیلئے یہ بہت بہتر ثابت ہوسکتی ہیں۔ صنعتکاروں پر ایک ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین کو اپنے یہاں مواقع دیں تاکہ ان کو دیکھ کر دوسری خواتین بھی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کریں اور ملکی ترقی میں ہاتھ بٹائیں، ملک میں تبدیلی آئے اور ترقی کرسکے۔



.
تازہ ترین