• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہا پسندی اور روشن خیالی میں کیا فرق ہوتا ہے؟وہی جو اندھیرے اور اجالے میں ہوتا ہے لیکن جو لوگ اجالوں کے نام پر جھوٹ کے اندھیرے پھیلائیں انہیں کیا کہا جائے؟ افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں ایک طرف مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے کفر کے فتوے ہیں تو دوسری طرف کچھ نام نہاد روشن خیال دانشوروں کے لبرل خیالات بھی فاشزم کی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ یہ دونوں رویے ہمارے معاشرے میں نفرت پھیلارہے ہیں کیونکہ جب علمی بحث میں جھوٹ اور گالی گلوچ آجائے تو نوبت خونریزی تک پہنچ جاتی ہے۔ یقین کیجئے کہ پچھلے سال میں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کالم لکھا تو کچھ لوگوں نے اس ناچیز پر توہین مذہب کا الزام لگادیا تھا اور عدالت میں مقدمہ بھی دائر کردیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی کیونکہ میری نیت صاف تھی اور قارئین کی اکثریت کو بھی پتا تھا کہ میں کسی قابل احترام شخصیت کی توہین کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ملک کے جید علماء نے میرے حق میں فتوے بھی جاری کردئیے اور عدالت نے بھی میرے خلاف الزام کو مسترد کردیا۔ آج صبح میں نے ایک کالم پڑھا جس میں ڈاکٹر مبارک علی کی رائے کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ23مارچ 1940ءکی قرار داد لاہور حکومت برطانیہ نے سرظفر اللہ خان کے ذریعہ تیار کرائی تھی۔ جہالت کی انتہا یہ تھی کہ اس دعوے کو’’نیا تاریخی مواد‘‘ قرار دیا گیا اور قائد اعظمؒ کا دفاع کرنے والوں پر قابل اعتراض زبان استعمال کرنے کا الزام لگادیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا۔ اس معاملے پر 1982میں پاکستانی اخبارات میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ اس وقت سر ظفر اللہ خان زندہ تھے اور انہوں نے ذاتی طور پر اس دعوے کی تردید کردی تھی کہ انہوں نے قرار داد لاہور کی تیاری میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے 16اپریل کے کالم میں سر ظفر اللہ خان کا وہ تردیدی بیان بھی نقل کردیا ہے جو 25دسمبر 1981ءکو ڈان اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ دن پہلے منیر احمد منیر صاحب بھی گواہی دے چکے ہیں کہ انہوں نے 1982ءمیں وارث میر کے ہمراہ سر ظفر اللہ خان سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں بھی پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ انہوں نے قرارداد لاہور کی تیاری میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے دانشور قائد اعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دے کر کس کے ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں ؟ اس موضوع پر علمی بحث کی گنجائش صرف اور صرف تاریخی شواہد کی بنیاد پر بڑھائی جاسکتی ہے ۔ آپ کے تمام شواہد اور دلائل جھوٹ ثابت ہوچکے پھر آپ قائد اعظمؒ پر اسی قسم کے الزامات کیوں لگارہے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل کچھ گمراہ اور مفاد پرست مولویوں نے لگائے تھے؟ ان گمراہ اور مفاد پرست عناصر نے ناصرف قائد اعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ کہا بلکہ انہیں کافر بھی قرار دیا۔ آپ میں اور کفر کے جھوٹے فتوے لگانے والوں میں کیا فرق ہے؟ قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگانے والوں کو برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے مستردکردیا تھا کیونکہ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سمیت بہت سے جید علماء قائد اعظم کے ساتھ کھڑے رہے۔ مولانا حسرت موہانی نے تو یہ گواہی بھی دی کہ قائد اعظم آدھی رات کو قرآن حکیم کو بہت غور سے پڑھا کرتے اور رویا کرتے لیکن انہوں نے اپنے آنسوں کو کبھی ا شتہار نہیں بنایا۔ تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کے کردار کی تفصیل وارث میر کے تحقیقی مضامین کے مجموعے’’وارث میر کا فکری اثاثہ‘‘ میں موجود ہے جو جنگ پبلشرز نے شائع کیا۔ اس کتاب میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ جنوری 1946میں اسلامیہ کالج لاہور کے گرائونڈ میں ایک علماء کانفرنس منعقد ہوئی جس کے انعقاد میں مولانا غلام مرشد پیش پیش تھے۔ اس کانفرنس میں مولانا شبیر احمد عثمانی اپنے دیوبندی عقیدت مندوں کے ہمراہ شریک ہوئے، سید محمد علی اپنے شیعہ شاگردوں کے ساتھ آئے، مولانا ابراہیم سیالکوٹی اپنے اہل حدیث ساتھیوں کے ہمراہ آئے اور پیر قمر الدین سیال شریف اور پیر رضا شاہ گیلانی سمیت بہت سے بریلوی علماء ایک اسٹیج پر اکٹھے ہوگئے اور سب نے قائد اعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ یہ تھا قائد اعظم کا اصل کردار جو عام مسلمانوں کے سامنے تھا۔ قائد اعظم مسلمانوں کو متحد کرکے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف تھے اور عام مسلمانوں کو اچھی طرح پتا تھا کہ برطانوی حکومت قائد اعظم کو پسند نہیں کرتی ۔ دوسری طرف کچھ سیکولر لوگ بھی قائد اعظم کے دشمن تھے کیونکہ قائد اعظم نے کانگریس کی جعلی سیکولرازم کا پول کھول دیا تھا۔ مذہبی انتہا پسند اور جعلی سیکولر دونوںہی قائد اعظم کے مخالف تھے۔ یہ دونوں مکاتب فکر کل بھی قائد اعظم کے متعلق جھوٹ بولتے تھے اور آج بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ دونوں مکاتب فکر کل بھی نفرتوں کے بیوپاری تھے اور آج بھی جھوٹ کے بیوپاری ہیں اور اسی لئے انہیں پاکستان میں نہ کل کوئی سیاسی کامیابی ملی نہ آج کوئی کامیابی ملے گی۔آج کے پاکستان میں ان عناصر کا ایک چہرہ جنرل ضیاء الحق ہے جس کے دور میں مذہبی جنونیت کے ذریعے جمہوریت پسندوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور انہی عناصر کا دوسرا چہرہ جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی ہے جس کے ذریعہ امریکی ڈالروں کے لئے اچھے طالبان اور برے طالبان کی ڈبل گیم کرکے پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا۔ پاکستان کے لوگوں کو مذہبی انتہا پسندوںاور لبرل ازم کے نام پر جھوٹ بولنے والے فاشسٹوں سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور انہیں بے نقاب بھی کرنا ہے کیونکہ یہ دونوں مکاتب فکر اندر سے نہ پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ ہی قائد اعظم کو مانتے ہیں۔ وہ لبرل دانشور جو واقعی پاکستان اور قائد اعظمؒ کو مانتے ہیں اورپاکستان کو قائد اعظمؒ کے نظریات کے عین مطابق دیکھنا چاہتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے دانشوروں سے مطالبہ کریں کہ قائد اعظم پر لگائے جانے والے جھوٹےالزام کو ناصرف واپس لیں بلکہ اس پر قوم سے معافی مانگیں اور اگر وہ اپنے موقف پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو پھر کسی لائیو ٹی وی شو میں ڈاکٹر صفدر محمود کے ساتھ مناظرہ کرلیں اور ساتھ کچھ تاریخی دستاویزات ضرور لے آئیں۔



.
تازہ ترین