• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انہوں نے آئندہ عام انتخابات کیلئے اپنی مہم کا آغاز کر دیا ہے لیکن کسی جماعت کے پاس بھی پاکستان کے مستقبل قریب کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو وہ اس کا وسیع تر تناظر میں جائزہ نہیں لے رہی ۔ نہ ہی کسی کے پاس عوام کے مسائل اور انکے حل کا کو ئی پروگرام ہے۔اس وقت پاکستان اس خطے کا سب سے اہم ملک بن گیا ہے اور خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا براہ راست پاکستان کی داخلی سیاست پر اثر پڑ سکتا ہے ۔ شام کے بعد افغانستان کے معاملے پر امریکہ اور روس ایک دوسرے کے مد مقابل آ چکے ہیں ، جس سے دنیا کے نئے ’’ کثیر قطبی ‘‘ ( یونی پولر ) نظام کے خدوخال واضح ہو رہے ہیں ۔ گزشتہ جمعہ کو روس میں افغانستان پر12 ملکی عالمی امن کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں روس اور افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران ، پاکستان ، بھارت ، چین اور وسطی ایشیا کی 6 ریاستوں نے شرکت کی ۔ یہ پانچ ماہ میں افغانستان پر روس میں ہونے والی تیسری کانفرنس تھی ۔ کانفرنس کے شرکانے افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ کابل حکومت کیساتھ فوری طور پر مذاکرات شروع کرے ۔ بحیرہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم ( نیٹو ) کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی ۔ امریکہ نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں انتہائی سخت گیر دہشت گرد تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکا جا سکے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک روس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت کر رہا ہے ، جس کی روس نے تردید کی ہے لیکن روس مسلسل خطے کی سیاست خصوصاً افغانستان کی صورت حال میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے اور اس نے گزشتہ دو دہائیوں سے اختیار کردہ عالمی سیاست سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کے شرکانے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے ۔
ماسکو کانفرنس سے ایک روز پہلے امریکہ نے افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں بموں سے حملہ کیا ۔ وہاں گرایا جانے والا بم دنیا سب سے بڑا غیر ایٹمی بم ہے ، جسے تمام بموں کی ماں کہا گیا ہے ۔ امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں داعش کے 90 جنگجو مارے جا چکے ہیں لیکن بم گرائے جانے کے وقت کے پیش نظر اس دعوے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس حملے کو روس میں ہونے والی کانفرنس کے تناظر میں دیکھا ہے اور یہ رائے دی ہے کہ کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ حملہ کیا گیا ہے ۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ شام میں بھی امریکہ داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے اور افغانستان میں بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ امریکہ وہ نہیں چاہتا ، جو روس میں ہونے والی کانفرنس کے شرکاچاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امن ہونے کے بعد امریکہ کی اس خطے میں فوجی موجودگی کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے اس خطے میں جو نیا عالمی بلاک بن رہا ہے ، وہ امریکہ کو اس خطے میں مستقبل قریب میں گھسنے بھی نہیں دے گا ۔ اس حوالے سے خطے کی سیاست کا مرکز و محور پاکستان ہے ۔ امریکہ اور روس کا شام کے بعد افغانستان کے معاملے پر آمنے سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مرحلے پر تصادم کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور پاکستان کے داخلی حالات کو فریقین اپنے لئے سازگار بنانے کیلئے کوششیں تیز کر دیں گے ۔ امریکہ کے اس خطے میں زیادہ جارحانہ عزائم نظر آ رہے ہیں اور ان عزائم کی تکمیل کیلئے وہ پاکستان پر فوکس کرے گا ۔ دوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ کے افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی ہے ۔ اس کے بعد پاکستان پر بھارت کے سفارتی دباؤ اور پاکستان کے اندر بھارت کی خفیہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستانی افواج کا کردار زیادہ نمایاں ہو گیا ہے ۔
علاقائی صورت حال کے اس تناظر میں پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی زبردست کھینچا تانی شروع ہو سکتی ہے اور حالات ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ عالمی طاقتیں پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے آئندہ کے کردار کے بارے میں اپنے اپنے طور پر لائحہ عمل تیار کرکے بیٹھی ہوئی ہیں ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے شاید حالات اس قدر سازگار نہ رہیں ، جو اس وقت ہیں ۔ پاناما کیس کی تلوار کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔ پاناما کیس کا فیصلہ اب تک آجانا چاہئے تھا ۔ اس میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہو گئی ہے ۔ ہر چند کہ ہمیں معلوم ہے کہ فیصلہ لکھنے میں عدالت کو وقت درکار ہوتا ہے لیکن تاخیر سے بہت سے معاملات پیچیدہ ہو رہے ہیں ۔ فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو ، مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح گزشتہ چند دنوں میں رونما ہونیوالے واقعات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کیلئے بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں جو کچھ ہے ، وہ پیپلز پارٹی کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے فیصلے سے بھی ان مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں غلام قادر مری ، اشفاق لغاری اور نواب لغاری کے اچانک لاپتہ ہونے کے واقعات بھی غیر معمولی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے شاید صورت حال کو بھانپ لیا ہے ۔ اسی لئے اس نے سندھ میں جارحانہ اور احتجاجی سیاست کا آغاز کر دیا ہے اور سندھ کارڈ کھیلنے کا عندیہ بھی دیدیا ہے ۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پنجاب سے نکل کر سندھ کے دورے کر رہے ہیں اور یہاں جلسے منعقد کر رہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی سندھ کے دورے شروع کرنیوالے ہیں ۔ ادھر کراچی میں پاک سرزمین پارٹی نے کراچی کے لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے مسلسل دھرنا دیا ہوا ہے ۔ آئندہ ایک دو ہفتوں میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی سڑکوں پر آتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور وہ بھی اپنی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہیں ۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ پاکستان کی داخلی صورت حال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے کیونکہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے پاکستان میں بہت سی ملکی اور غیر ملکی قوتوں کا عمل دخل بڑھ رہا ہے ۔ آئندہ ایک دو ماہ بہت اہم ہیں اور پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کیلئے یہ امتحان ہے کہ وہ کس طرح آئندہ عام انتخابات کے ذریعے پرامن جمہوری انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل کرتے ہیں اور یہ مرحلہ ایسے مکمل ہو کہ اس سے پہلے یا بعد میں کوئی سیاسی انتشار پیدا نہ ہو ۔



.
تازہ ترین