• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں انہیں چھیڑوں اور وہ کچھ نہ کہیں
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف:زرداری سی پیک پر دستخط کر کے بنیاد رکھنا کیوں بھول گئےایک اپنا پرایا شعر عرض ہے؎
سب کچھ چھوڑا میں نے نہ چھوڑی دنیا داری
سچ ہے دنیا والو کہ میں ہوں زرداری
ویسے چھوٹے میاں صاحب کو کیا فرق پڑتا اگر آصف علی زرداری کو سی پیک پر دستخط کرنے کا کریڈٹ دے دیتے، آخر سی پیک نے جنم تو لے لیا تھا اب پرورش کرنے کا سارا ثواب خدا کرے پاکستان کے عوام کو مل جائے، یہ قوم کو دھوکا دیا کہ سی پیک پر پہلے دستخط یعنی اس کی توثیق زرداری نے کی، میاں صاحب اس ملک میں عوام کے دیوانے ہزاروں ہیں، اس بلند بانگ بیان کے ٹھیک نیچے 3کالمی سرخی ہے:بجلی کی 16گھنٹے سے زائد لوڈ شیڈنگ پر عوام بلبلا اٹھے لوگوں نے روڈ بلاک کر کے دھرنا بھی دیا، اب یہ دھرنا عمران خان کے اکائونٹ میں نہ ڈالنا البتہ اس کی رائلٹی انہیں ضرور ملے گی، نہ جانے آئندہ انتخابات میں کسی کے حصے میں کتنے ووٹ آئیں سردست تو ایک اجتماعی ’’ڈر‘‘ نظر آتا ہے، کیوں کہ تین بڑی پارٹیاں آمنے سامنے اور تینوں کے سیاسی عیب برابر برابر، عوام کی صحت کے لئے بہتر ہو گا کہ وہ اپنا فیصلہ آئندہ سے آئندہ انتخابات تک محفوظ کر لیں؎
آئیں گے حکمراں کابل سے عوام جاپان سے
برا منانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ تحریر مزاحیہ سنجیدگی پر مبنی ہے، ایسی عبارت سے کوئی ہنستا ہے نہ روتا درمیان میں معلق رہتا ہے، اب ہم یہاں یہ شعر اپنی کسی بات یا ریمارکس کو چھپانے اور پہنچانے کے لئے لکھ نہ دیں، غالبؔ کہتے ہیں؎
میں انہیں چھیڑوں اور وہ کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیئے ہوتے
٭٭٭٭
امریکی بم ماں
مدر آف آل بمز، افغانستان میں مرنے والوں کی تعداد 90ہو گئی۔ پاکستان میں بھی بستیاں متاثر، مسلم امہ کا یہ مقام ہے امریکہ کی نظر میں اپنی، امریکی بموں کی ماں کو مشہور زمانہ تجربہ گاہ افغانستان میں ایکسپلوڈ کر دیا، کہ اس کی کارکردگی دیکھیں کیسی ہے، کارکردگی کو چھوڑیں لیکن چال چلن ٹھیک نہیں، اب داعش کے نام پر کتنے اسلامی ممالک کو نشانہ بنانا، اور بعض قوتوں کو ڈرانا مقصود ہے کہ سپر پاور بے لگام عالمی قوت کو کہتے ہیں کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔ بارودی انڈے مسلمانوں کے ہاں اور کڑ کڑ اپنے ملک میں، یہ ہے امریکی طریقہ واردات جو ٹرمپ سے نہیں سپر پاور بننے کی تاریخ سے جاری ہے، اچھا ہے دنیا پر کھل جائے کہ وہ کونسا فرعون ہے جس کے لئے کوئی موسیٰ نہیں، البتہ مسلم امہ میں قارونوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ کوئی تو انسانیت کا مارا بولے کہ بموں کی ماں نے جن کو مارا وہ کون تھے، کہیں داعش کو پہلے ہی اطلاع تو نہیں کر دی گئی تھی؟ سپر پاور نے اپنی دہشت پسندانہ پالیسیوں سے عالم اسلام پر رعشہ طاری کر رکھا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرما دیا تھا:’’ایک زمانہ ہو گا تمہاری تعداد بہت بڑی ہو گی مگر حیثیت جھاگ برابر‘‘ اب تو دور دور تک اذانیں سنائی دیتی ہیں روح بلالی ایک میں بھی نہیں، ٹوٹی ہوئی تلواروں، ڈنڈوں سے پوری دنیا میں فتح کے گھوڑے دوڑانے والوں کے پاس ایمان جیسا ناقابل تسخیر و مقابلہ اسلحہ موجود تھا، اب تو کاٹو تو بدن میں ایمان ہی نہیں، تو 57اسلامی ممالک کی جھاگ بھلا بیٹھنے کے سوا، چپکے رہنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے؟
٭٭٭٭
تقریباً
لگتا ہے ہم سب تقریباً یقیناً نہیں ہیں، انسان کچھ بھی کہے مفہوم تقریباً ہی ہوتا ہے ہم سمجھتے تھے کہ وہ انسان ضرور یقیناً ہے جسے ہم مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں اور وزیراعظم کے نام سے پکارتے ہیں، لیکن پاناما کیس کے بعد وہ بھی تقریباً ہیں یقیناً نہیں ہیں، مناسب ہوتا کہ میچ ڈرا ہو جاتا سب خوش خوش گھر تو جاتے، بہرحال ہمارا علم یقینی نہیں، اور یہ بڑی بلیسنگ ہے کہ غیر یقینی ہے، ورنہ ہم اپنا گلوبل ڈرامہ ایک ہی قسط میں ختم کر چکے ہوتے، انسان کی طاقت کا سرچشمہ امید ہے، ہم کبھی کسی مرنے والے پر نہیں روتے اپنے لئے روتے ہیں، اکثر غم کے سانحوں کے بعد ایک خوشگوار سی تھکن ہوتی ہے، کہ چلو تاحال ہم تو بچے ہوئے ہیں؎ ’’گور پیا کوئی ہور‘‘ ہر ملت و مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں انسان کے وجود کا تسلسل برقرار رہنے کا عقیدہ موجود ہے، جب کوئی مصور شاہکار تخلیق کرتا ہے تو اسے محفوظ رکھنے کا ہر چارہ کرتا ہے، ہمیں بھی جس نے رحم مادر میں تراشا وہ ہمیں فانی ہونے کے باوجود فنا نہیں کرے گا، کیونکہ انسان اس کی وہ تصویر ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہے اس عجوبے کو دیکھ کر اس نے اسے با اختیار بھی کر دیا، اور اختیار کو ممکنہ خطرات سے بچانے کا سازوسامان اور طریقے بھی ایجاد کرنے کی صلاحیت دیدی، ویسے تو وہ ہر ذرے میں موجود ہے لیکن انسان ہی میں دکھائی دیتا ہے، ہم اکثر شعر اس وقت کوٹ کرتے ہیں جب کوئی بات سمجھا نہیں سکتے یا کہنے کا ڈھب نہیں آتا اس لئے میرے نزدیک قادر الکلام وہ ہے جس کی تحریر میں شعر کی بیساکھی، استعمال نہ کی گئی ہو، دنیا کے عظیم ترین انسانوں کو شاعری کا سہارا نہیں پڑا، اگر ہمت ہوئی تو خود ہی شعر کہہ دیا، جیسے اقبال نے ساری باتیں شعر میں کی ہیں، اور جو خاص باتیں تھیں وہ اپنے سات لیکچرز میں کہہ ڈالیں شاید شعر کی قبا نثر سے چھوٹی ہے، انسان سب سے پہلے نثر ہی بولتا ہے گویا نثر ہو جاتی ہے شاعری کی جاتی ہے، ختم اس امکان کے ساتھ یہ لکھا مکمل طور پر غلط ہو، لیکن پھر بھی امید ہے کہ شاید تقریباً صحیح بھی ہو۔



.
تازہ ترین