• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ نے افغانستان پر دُنیا کے سب سے بڑے غیرایٹمی بم سے حملہ کردیا، یہ بم 10ہزار کلو بارودی مواد اور آگ لگانے کی خصوصیت کا حامل ہونے کی وجہ سے اتنا تباہ کن ہے کہ اسے ’’بموں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس کا پہلا تجربہ 2003ء میں کیا گیا اور اس 13اپریل کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع آچن میں اس کا پہلا استعمال ہوا۔ امریکہ کے مطابق اس نے یہ حملہ داعش پر کیا، جنہوں نے اِس ضلع میں موجود پہاڑی سرنگوں میں اپنا اڈہ بنایا ہوا ہے۔ یہ صوبہ پاکستان کی سرحد کے قریب ہے، یہ بم ایٹم بم سے ذرا کم تباہی پھیلاتا ہے البتہ اتنی بڑی مقدار میں موجود بارود اردگرد آکسیجن کی کمی پیدا کر دیتا ہے، لگتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ہی داعش کو ختم کرنے کا جو منصوبہ بنانے کا حکم دیا تھا یہ حملہ اس منصوبے کی عملی شکل ہے۔ یہاں یہ بات جو ہم کہتے تھے کہ داعش امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار ہے وہ دعویٰ سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ داعش امریکہ نے بنائی، اِس کی تصدیق کئی معتبر ذرائع سے ہوئی اور خود ہیلری کلنٹن نے اس کی تصدیق اپنی انتخابی تقاریر میں بھی کی، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ میں نئی سوچ پیدا ہوگئی ہے؟ کہ داعش جیسی تنظیمیں بالآخر خود امریکہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگئی ہیں یا پھر ڈونلڈ ٹرمپ اوبامہ دور کے منصوبوں کو لپیٹ دینا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے داعش کو روس، پاکستان، ایران اور چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے ورنہ منصوبہ تو یہ تھا کہ شام میں داعش کی ہزیمت کے بعد داعش کو افغانستان میں مجتمع کرکے پاکستان، روس، ایران، چین اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ امریکہ نے شام میں حملہ کرکے داعش کو مضبوط کیا اور افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے اُس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، اس طرح پاکستان اور روس کو فی الفور فائدہ ہوگا تاہم اِس حملہ میں ’’ٹرمپ اثرات‘‘ پنہاں ہیں۔ جس میں امریکہ کا دوربارہ افغانستان پر حملہ اور وہ بھی بھرپور حملہ اور وہ بھی زیادہ طاقت کے ساتھ۔اس طرح امریکہ نے اپنی طاقت اور حملہ کرنے کی صلاحیت کا اظہار کرکے ساری دُنیا پر واضح کردیا کہ وہ کچھ بھی کرسکتاہے۔ ایک ہفتہ کے اندردو بڑے حملے ایک شام میں اور دوسرا افغانستان میں، اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو لڑاکا ظاہر کیا ہے، اُس کی تیسری مہم جوئی شمالی کوریا پر حملے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سرحد کے قریب ایسے بم سے حملہ کرنا جو ایٹم بم جیسی تباہ کاری کا حامل ہے، سے کوئی پیغام تو نہیں دیا جارہا۔ اگرچہ داعش پاکستان کی دشمن ہےیہ لوگ ننگرہار سے پاکستان پر حملہ آور ہوتے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے فاٹا سے دہشت گردوں کو مار بھگایا یا دہشت گردوں سے پاک کیا اور پاکستان کی مسلح افواج نے دُنیا پر اپنا سکہ جمایا کہ وہ دُنیا کی واحد فوج ہے جس نے اُن دہشت گردوں پر قابو پایا جس پر قابو پانے میں امریکہ اور نیٹو ناکام ہوچکے تھے۔ ممکن ہے امریکہ اب خود بھی دہشت گردوں پر قابو پانے کا اعزاز لینا جاہتا ہو۔ وگرنہ یہ پاکستان کو ڈرانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ داعش اِس کا کیا ردعمل دیتی ہے یا پھر اس حملے کے بعد اس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔
دوسرا اہم مسئلہ کلبھوشن یادیو کا ہے وہ جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ اس کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا، پاکستان نے اس کے نیٹ ورک کو توڑ دیا، اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا جن کی تعداد سینکڑوں ہے، اس پر ایک دستاویز تیار کرکے اقوام متحدہ کے حوالے کی گئی۔ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے کمانڈر کے عہدہ کا افسر تھا جو آرمی کے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدےکے برابر عہدہ ہوتا ہے اور لیفٹیننٹ کرنل کسی بھی فوج کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور میدان جنگ میں وہ اپنے دستوں یا بحری کمانڈوز کی کمانڈ کرتا ہے، یہ شخص ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں تعینات تھا اور وہاں سے پاکستان آ کر وہ اپنے ایجنٹوں سے ملتا، اُن کو ہدایت دیتا، فنڈ یا اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اُس کی کراچی میں بلاروک ٹوک آمد تھی اور اُس کے کارندے یہاں بھی موجود تھے، یعنی بھارتی نیوی کا کمانڈر پاکستان کے خلاف خفیہ طور پر برسرپیکار تھا، اس کے پکڑے جانے کے بعد وہ سزائے موت کا مستحق تھا، جس نے پاکستانیوں کی جانوں کو دائو پر لگایا، بے دریغ سینکڑوں معصوم لوگوں کی جان لی، ہزاروں کو زخمی و اپاہج کیا۔ پاکستان کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی اور واضح طور پر حالت جنگ میں تخریب کاری کی جو سرگرمیاں ہوتی ہیں وہ کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف وہ چین پاک اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھا اور اسی برتے پر بھارت کے مشیر سلامتی امور اجیت ڈول سینہ تان کر کہتے تھے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔ کلبھوشن یادیو کو سمندری حدود میں تخریب کاری کرنا تھی اور اس کیلئے بھارت ہر طرح کے پروگرام بنائے بیٹھا تھا، چند دنوں پہلے ایک بھارتی آبدوز کا پاکستانی سمندر کے قریب پاکستان کی بحریہ کی مستعدی اور اللہ کی رضا سے ظاہر ہونا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کمک پہنچانے یا دہشت گردی کی کوئی کارروائی کرکے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے تھی مگر کلبھوشن کے گرفتار ہونے کے بعد سے ہی پاکستان نے بھانپ لیا تھا کہ بھارت سمندری راستے سے دہشت گرد بھیجتا ہے،اُن کی مدد کرتا ہے اور پاکستانی بحری حدود میں تخریب کاری کرکے پاک چین منصوبے میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے، چنانچہ پاکستان نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں، 13دسمبر 2016ء کو بحری ٹاسک فورس T-88گوادر میں منظم کردی اور اس کو ہر طرح کے ریڈار، اسلحہ، میزائل، گن بوٹ، گشتی کشتیوں سے لیس کردیا۔ بھارت کی تخریب کاری کے ناپاک ارادے روبہ عمل ہیں، اس لئے تمام شواہد اور واقعات کی روشنی میں کلبھوشن یادیو کو موت کی سزا سنائی گئی، جس پر بھارت چراغ پہ ہے کہ وہ بھارت کاجاسوس، قاتل، تخریب کار جس نے سینکڑوں پاکستانیوں کو شہید کیا ہے، کو کیسے پھانسی دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ بھارت کا بیٹا ہے۔ جاسوس کا ازل سے یہی انجام ہوتا آیا ہے، سو کلبھوشن بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور اُس کو اس لئے بھی پھانسی دینا پڑے گی تاکہ بھارت کی خودساختہ بالادستی کا تصور ٹوٹے، ہم اُس کی بالادستی کو نہیں مانتے مگر وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو بالادست قوت سمجھتا ہے، سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا ڈرامہ رچاتا ہے، سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ کرتا ہے، کلبھوشن کے پھانسی کے اعلان کے بعد پاکستان کودھمکی دیتا ہے، اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ بھارت کا غرور توڑا جائے، کلبھوشن کو سزا دراصل چین پاکستان اقتصادی راہداری کو مکمل کرنے اور اُس کے امن کیلئے ضروری ہے یعنی جو جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، پاکستان کسی کی دھمکیوں میں آنے والا نہیں، پاکستان کی بری افواج کے کورکمانڈر کے 13اپریل 2017ء کے اجلاس میں اس ہی عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔



.
تازہ ترین