• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹھیک دوسال قبل انہوں نے بطور چیئرمین سینیٹ حلف اٹھاتے ہوئے آئین کی سربلندی اور پارلیمان کی بالادستی کے بارے میں اپنے عزائم ان واشگاف الفاظ میں ظاہر کر دئیے تھے کہ وہ پارلیمنٹ کو غیر جمہوری قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دیں گے۔ دیکھنے والوں نے گواہی دی کہ دو سال میں انہوں نے نہ صرف اپنے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کی لاج رکھی بلکہ اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آئین کی حکمرانی ہی جمہوریت کی ضامن ہے۔ میاں رضا ربانی کے نام سے جانے والے آئین پاکستان کے اس محافظ نے قومی مفاد کا لیبل لگا کر اہم قومی امور کو منتخب نمائندوں کی دسترس سے دور رکھنے والوں کو ’’ان کیمرا‘‘ بریفنگ کے ذریعے سوالات کے جواب دینے کا پابند بھی بنا دیا۔ نوکر شاہی کی اصطلاح کی آڑ میں عوام پر حقیقی حکمرانی کرنے والے افسران کی ایوان کی گیلریوں میں حاضری کا سہرا بھی انہی کے سر بندھتا ہے۔ وفاق کی حقیقی علامت ایوان بالا کو سرکاری طور پر ہاؤس آف فیڈریشن قرار دے کر صوبائی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینی ہو یا آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے آمروں کی بغاوت کی نشانیوں پر مبنی دستور گلی کا قیام ہو، جمہوریت کے تحفظ کیلئے آمریت کے سامنے سینہ سپر ہونیوالوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر یادگار شہداء جمہوریت تعمیر کرنی ہو یا پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کی منظوری کی یادیں تازہ کرنے کیلئے یوم دستور منانا ہو، ذہن صرف ایک ہی شخصیت میاں رضا ربانی کی طرف جاتا ہے جن کی جمہوریت اور اصول پسندی کا اعتراف سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں۔ یہ ان کا کردار ہی ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں انہیں متفقہ چئیرمین سینیٹ منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور پھر اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پارٹی وابستگی ماضی کا حصہ بن جانی چاہئے۔ ایوان بالا کو آئین اور قواعد و ضوابط کے تحت چلانے پر سختی سے کاربند رہنے کے باعث انہیں ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ جیسے خطابات سے بھی پکارا گیا لیکن انہوں نے سینیٹ کے وقار کو ہر قسم کے مفادات سے مقدم رکھا۔ آئین کو اپنی اکلوتی طاقت سمجھنے والے چیئرمین سینیٹ نے جمعہ کو ایک اور تاریخ رقم کرتے ہوئے حکومت اور وفاقی وزرا کی عدم توجہی اور پارلیمان کو اہمیت نہ دینے کے باعث نہ صرف ایوان بالا کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا بلکہ یہ کہتے ہوئے مستعفی ہونے کی پیشکش بھی کی کہ وہ بطور چیئرمین ایوان کا تقدس قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اگر وہ ایوان کا وقار برقرار نہیں رکھ سکتے تو انہیں اس عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے فوری طور پر سرکاری پروٹوکول واپس کر نے، مجوزہ دورہ ایران کی منسوخی اور بطور چئیرمین ذمہ داریاں ادا نہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ متوقع طور پرحکومت نے یقین دہانیوں کے بعد چئیرمین سینیٹ کو فیصلہ واپس لینے پر راضی کر لیا اور آج سے سینیٹ کا اجلاس بھی دوبارہ شروع ہو جائے گا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو ملک کی پارلیمانی تاریخ کے انتہائی اقدام پر مسلم لیگ ن کی حکومت، وزیراعظم اور وفاقی وزارا کے اس رویے نے مجبور کیا جس میں وہ پارلیمنٹ کو بھی اپنی پارٹی کی طرز پر چلانا چاہتے ہیں۔ یہ قطعاً پہلی بار نہیں تھا کہ چئیرمین سینٹ نے پارلیمان کو نظر انداز کرنے کے حکومتی ر ویے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہو بلکہ وہ اس سے قبل بھی متعدد بار نہ صرف کچھ وقت کیلئے احتجاجا اجلاس ملتوی کرتے رہے ہیں بلکہ وفاقی وزرا کو غیر حاضری پر پابندی لگانے کی وارننگ بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ حکومت کو پارلیمنٹ کی اہمیت کا احساس دلانے کیلئے وہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کی مسلسل غیر حاضری پر ان کی کچھ دن اجلاس میں شرکت پر پابندی لگانے جیسی مثال بھی قائم کر چکے ہیں۔ وفاقی وزرا کی ایوان سے اکثر غیر حاضری پر بار بار تنبیہ پر قائد ایوان راجہ ظفرالحق بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی یقین دہانیاں کراتے ہوئے اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پانی جب سر سے گزر چکا تو چئیرمین سینیٹ کو منانے والوں میں پیش پیش وہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نظر آئے جن کی وزارت اس سارے قضیے کا بنیادی سبب بنی کیوں کہ ان کی وزارت نے متعلقہ سوال کو جواب دینے کیلئے قبول نہیں کیا تھا۔ چئیرمین سینیٹ کے غیر معمولی اقدام کو حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کی اکثریت نے جائزقرار دیا تاہم ان کے اس رویے پرکچھ حلقوں کی طرف سے تنقید بھی کی گئی۔ یہاں تک بھی کہا گیا کہ یہ سابق صدر آصف زرداری کے تین ساتھیوں کی گمشدگی کا شاخسانہ ہے لیکن شاید تنقید کرنے والے نہیں جانتے کہ سینیٹ کے اسی اجلاس کے دوران ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض سینیٹرز کی طرف سے اس معاملے کو اٹھائے جانے کے باوجود چیئرمین سینیٹ نے اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر اس پر بحث کی اجازت نہیں دی تھی۔ میاں رضا ربانی کو پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں صدائے احتجاج بلند نہ کرنے کے طعنے دینے والے یہ ادراک بھی نہیں رکھتے کہ ان کی رگوں میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ بطور اے ڈی سی کام کرنیوالے اس میاں عطاء ربانی کا خون دوڑ رہا ہے جو سرکاری گاڑی ذاتی استعمال کرنے کی صورت میں اس کا خرچ ذاتی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔ رضا ربانی تو شہید بے نظیر بھٹو کے سامنے بھی اس وقت حق گوئی سے نہیں ہچکچائے تھے جب انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ سائن کئے گئے این آر او کو میثاق جمہوریت کی نفی قرار دے دیا تھا۔ یہ وہی سر پھرے تھے جنہوں نے پرویز مشرف کو آمر قرار دے کر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھی وہی ’’جیالے‘‘ تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے ق لیگ کیساتھ اتحاد کو ’’مفاہمت‘‘ کی آڑ میں مفاد پرستی کی سیاست قرار دیتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ ایسے شخص کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے اور ضرورت سے زیادہ سختی نہ کرنے کا درس دینے والی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی اداؤں پہ ذرا غور کرے۔ بے توجہی کی حد تو یہ ہے کہ پونے چار سال گزر چکے لیکن دو تہائی اکثریت رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیر دفاع آج بھی کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی میں سعودی فوجی اتحاد اور کلبھوشن یادیو جیسے انتہائی اہم معاملات پر اپنا پالیسی بیان تک مکمل نہیں کر پائے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں دوسری بار توسیع کی آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے پارٹی کا پارلیمانی اجلاس طلب کرنا پڑتا ہے تاکہ درکار ارکان کی حاضری ممکن بنائی جا سکے۔ ایوان بالا میں اسی آئینی ترمیم کو دو تہائی ارکان کی حاضری نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دنوں کیلئے مؤخر کرنا پڑتا ہے۔ آئے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن ارکان وفاقی وزرا کی غیر حاضری پر واک آؤٹ کرتے ہیں لیکن وفاقی وزرا اپنے پارٹی قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اجلاس میں شرکت کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی پارلیمنٹ میں حاضری کی مثالیں دے کر تھک چکے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن دھرنے کے دنوں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کی بھرپور شرکت کے دوران سنائے گئے لطیفے کو بھی کئی بار دہرا چکے لیکن مشکل وقت گزر چکا اس لئے کون سی پارلیمنٹ کہاں کی پارلیمنٹ۔ جو وزیراعظم صاحب سینیٹ میں ہونیوالی ترمیم جس کے تحت انہیں ہفتے میں ایک دن ایوان بالا میں آنا لازم ہے، کے باوجود مہینوں اور سالوں ایوان کا رخ نہ کریں ان کی کابینہ کے وزرا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ’’ضروری‘‘ مصروفیات چھوڑ کر ’’غیر ضروری‘‘ اجلاس میں حاضر ہوں پارلیمنٹ کو دی جانیوالی اس ’’اہمیت‘‘ کے بعد چیئرمین سینیٹ کے پاس کیا کوئی اور چارہ تھا، قارئین فیصلہ خود کر لیں۔



.
تازہ ترین