• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکمراں اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرنا چاہتے اور عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا پھر مردم شماری کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کا 2دسمبر2016ء کو فیصلہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم دیا گیا کہ 15مارچ سے 15مئی 2017ء تک مردم شماری کرائی جائے، پہلے مرحلے میں ملک بھر کے63اضلاع میں 15مارچ سے 15اپریل تک جبکہ دوسرے مرحلے میں 88 اضلاع میں25 مئی تک مردم شماری کا کام مکمل کیا جائے گا۔رپورٹس کے مطابق مردم شماری میں ایک لاکھ 19ہزار کا سول عملہ اور 2لاکھ فوجی جوان خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مردم شماری کیلئے 5کروڑ60لاکھ فارم استعمال ہوں گے، اس کے غیر حتمی نتائج 60دن میں سامنے آئیں گے جبکہ کل اخراجات کا تخمینہ 30ارب روپے بتایا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں خانہ شماری اور مردم شماری کے کام کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب آئندہ ہفتے دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ دوسرا مرحلہ شروع کرنے سے پہلے وہ اعتراضات یا سوالات جو اٹھائے گئے یا اس دوران جو مسائل درپیش ہوئے انہیں مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک معمولی سفر کیلئے بھی تیاری کی جاتی ہے مگر حکومت نے بغیر کسی تیاری مردم شماری شروع کرادی جس سے اس کی سنجیدگی اور نیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق فارم تیار کروائے جاتے مگر وہ فارم استعمال کئے گئے جو 2007ء میں پرنٹ کروائے گئے تھے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے صوبوں سے مشاورت بھی نہیں کی۔ مردم شماری کے آغاز سے پہلے ہی مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ ایم کیو ایم اور پی پی تو اس کو عدالت میں لے گئے کہ وفاق اس مردم شماری میں ایسے اقدامات کررہا ہے جس سے اصل سے کم آبادی دکھائی جائے۔ یہ اعتراض بھی سامنے آیا کہ ملک میں 70کے قریب زبانیں بولی جاتیں ہیں مگر فارم میں صرف9زبانوں کو شامل کیا گیا، گجراتی زبان جو لاکھوں افراد بولتے اور قائداعظم ؒ کی بھی مادری زبان تھی پھر گلگت، بلتستان کی زبان کو شامل نہیں کیا گیا۔ مذہب کے حوالے سے اعتراض سامنے آیا کہ صرف چار مذاہب کا فارم میں ذکر ہے باقی سب کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھا گیا ہے۔ گوپشاور ہائیکورٹ نے کیلاش مذہب اور سندھ نے سکھ مذہب کو شامل کرنے کا حکم دیاہے۔ اسی طرح خواجہ سرائوں کا خانہ شامل نہیں تھا جو عدالت کے حکم پر شامل کیا گیا۔ یہ اعتراض بھی ہے کہ ملک میں سب کے پاس شناختی کارڈ نہیں، جبکہ نادرا کی رپورٹ یہ ہے کہ سندھ میں اب تک مجموعی طور پر 2کروڑ 22لاکھ کے قریب شناختی کارڈبنے ہیں، جن میں تقریباً ایک کروڑ کے قریب کراچی، 10لاکھ حید ر آباد اور باقی سارے سندھ کے ملا کر کل ایک کروڑ 12لاکھ بنتے ہیں۔ مشیر سندھ قیوم سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کی 30فیصد آبادی ایسی ہے جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں جبکہ نادرا نے یہ انکشاف کیا ہے کہ 14لاکھ ایسے افراد ہیں جنہوں نے شناختی کارڈ بنوانے کے بعد وصول ہی نہیں کئے اور جب چھ مہینے گزر جاتے ہیں تو نادرا انہیں تلف کردیتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اس وقت بیرون ملک 70لاکھ سے زائد پاکستانی روز گار کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی ہیں مگر انہیں مردم شماری سے محروم کیا جارہاہے۔ صرف انہیں شمارکیا جائے گا جو گزشتہ چھ مہینے میں گئے ہیں۔ اِدھر سندھ کے ایک وزیر نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں50 لاکھ کے قریب غیر قانونی تارکین وطن ہیں جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں، محکمہ شماریات کا کہنا ہے کہ یہ نادرا کی غلطی ہے اگر کسی کے پاس شناختی کارڈ ہے تو وہ مردم شماری میں شامل ہوگا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسوقت ملک میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین 13سے 16لاکھ کے قریب ہیں اور کئی لاکھ نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا ہوا ہے اور وہ مردم شماری کا حصہ ہوں گے۔ خانہ شماری اور مردم شماری کے دوران مسائل اور رکاوٹیں دیکھی گئیں اُن میں ایک تو عملے کی بھر پور ٹریننگ ہی نہیں تھی،جس کی وجہ سے اعتماد کی کمی نظر آئی، لوگوں کیلئے موثر آگہی مہم کی کمی بہت شدت سے محسوس کی گئی، خانہ شماری میں سب گھروں پر ش کے نشان نہیں لگے، خانہ بدوش، خیمہ بستیوں اور سڑک کنارے رہنے والوں کو کیسے گنا گیا، بعض جگہوں پر کچی پنسل سے فارم مکمل کئے جاتے رہے اور یہ جواز پیش کیا گیا کہ فارم خراب ہونے سے بچانے کیلئے ایسا کیا گیا۔ مردم شماری کے عملے نے گھروں کو اسوقت وزٹ کیا جب مرد حضرات کی اکثریت دفاتر یا کاروبار کے سلسلے میں گھروں سے باہر تھی۔ خواتین ایک تو مرد عملے سے گھبراتی ہیں اور پھر درست معلومات فراہم نہیں کر سکتیں، اسی طرح یہ مردم شماری کے عملے پر منحصر ہے کہ کیا معلومات دی گئیں اور کیا فارم میں درج ہوئیں کیونکہ نہ تو فارم گھر کے سربراہ سے مکمل کرایا گیا نہ ہی اُسے چیک کرایا گیا۔ معلومات کے درست نہ ہونے کا شک اپنی جگہ موجود ہے۔ بعض بڑے گھروں میں عدم تعاون دیکھنے میں آیا کیونکہ صاحب اور بیگم صاحبہ کی بجائے ڈرائیور، نوکر اور گھریلو ملازمہ کے ذریعے معلومات عملے تک پہنچیں جنکے صحیح ہونے پر کتنا یقین کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ایک گھر میں شادی شدہ بیٹے کو الگ خاندان تصور کیا جائیگا یا اگر وہ والدین کیساتھ رہتا ہے تو اسے خاندان میں گنا جائیگا۔ اس ساری صورتحال کے باوجود پہلے مرحلے کا کام بخیر وخوبی مکمل ہوگیا،سوائے چند حادثات کے جن میں لاہور میں مردم شماری کے عملے کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا، لاہور میں ہی مردم شماری کے عملے کی یونیفارم پہن کر ڈکیتی ہوئی، چارسدہ اور ایبٹ آباد میں مردم شماری ٹیم پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا وغیرہ شامل ہیں اور اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف نے دہشتگردی کو جڑ سے کچلنے اور مردم شماری کو مکمل کرنے کے اپنے عزم کو دہرایا۔
مردم شماری کا مقصد یہی ہے کہ ملک اور کس صوبے میں کتنے لوگ آباد ہیں، ان میں کتنے مرد، خواتین، مُخنث ہیں، کتنے صحت مند اور معذور ہیں، کتنے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہیں ان سب کا تناسب کیا ہے۔ جسکی بنیاد پر ملکی وسائل کی نہ صرف درست تقسیم ہونی ہے بلکہ مردم شماری کے بعد ملک میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں ہونی ہیں گو یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے لیکن جب مردم شماری ہوئی ہے تو نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی انتخابات ہونگے اور مجوزہ انتخابی قانون کے مطابق عام انتخابات سے چھ مہینے پہلے الیکشن کمیشن کیلئے جامع پلان کو حتمی شکل دینا ضروری ہے۔ اسی لئے اس نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اگر ستمبر تک مردم شماری کا کام مکمل نہیں ہو پاتا تو پھر 2018ء کے آئندہ عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہی ہونگے۔ اب یہ انحصار مردم شماری کے نتائج پر ہے۔ مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے ہمیشہ سے تحفظات رہے ہیں اور 19سال پہلے ہونیوالی مردم شماری کے بعض نتائج کو آج تک سامنے نہیں لایاگیا، پھر خاص شہری اور دیہی آبادی کو کم یا زیادہ کرنے کے حوالے سے اعتراضات اسی طرح موجود ہیں لیکن اگر اب کی بار بھی مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا گیا اور اسکے نتائج کو کسی خاص مفاد کے تحت ترتیب دیا گیا تو اس ملک میں نہ کبھی صحیح منصوبہ بندی ہوسکے گی، نہ ہی انتخابی اصلاحات کا فائدہ اور نہ ہی انتخابات میں دھاندلی کی بازگشت ختم ہوگی۔ جس سے ملک نہ ترقی کر سکے گا اور نہ ہی خوشحالی عوام کا مقدر ہوگی اور 19برس بعد بھی یہ اتنی بڑی مشق بے کار ہوگی، اسلئے سب ہی کو ملکی مفاد سامنے رکھتے ہوئے مردم شماری کے عمل کو مکمل کرنا ہے!



.
تازہ ترین