• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر کے میڈیا اسکالرز دنیائے ابلاغ عامہ کی اس توجہ طلب حقیقت سے اتفاق کررہے ہیں کہ’’میڈیا معاشرے کے طاقتور طبقات کے زیر اثر آکرعوام الناس کو مطلوب حد تک معاشرے کو مطلوب حد تک پیشہ ورانہ خدمات دینے سے قاصر ہوتا جارہا ہے‘‘ ۔ ابلاغیات کے طالبعلم کے طور پر اس اتفاق رائے کی تائید یوں کرتا ہوں کہ ’’صحافیوں نے اپنی ادارہ سازی خود کرکے پیشہ صحافت کو ایک بے پناہ بااثر اور اہم پیشہ بنادیا، جو بلاشبہ بڑی تیز رفتاری سے معاشرے کی کتنی ہی ضروریات کو پورا کررہا ہے، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ پیشہ صحافت کی دریافت کمیونیکیشن ٹیکنالوجی(جس نے اپنا سفر تا چھاپہ مشین ہاتھ سے لکھی تحریر) کی مرہون منت ہے‘‘۔
ابلاغ عامہ تو ابتدائے زمانے سے ہی انسانی زندگی میں موجود ہے، جیسا کہ گزشتہ آئین نو (16اپریل) میں واضح کیا گیا کہ ذرائع ابلاغ عامہ نے کس طرح انسانی معاشرے کی تشکیل ا ور اس کی تہذیب سازی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پرنٹنگ مشین کی ایجاد ابلاغ عامہ کی تاریخ ہی نہیں، کل انسانی تہذیب کی سب سے انقلاب آفریں ایجاد یوں ثابت ہوئی کہ اس کے بعد انسانی تہذیب کا وہ عمل جو ہزاروں سال سے مسلسل ثمر آور تھا، از سر نو شروع ہوا، جرمن لوھار جوئس گوٹن برگ کے ہاتھوں 1450میں پرنٹنگ مشین ایجاد کی۔ ابلاغ کا عمل ایجاد کے بعد اتنا تیز تر اور رفائن ہوا کہ بعد از ایجاد اس نے ابتدائی عشروں میں’’پیشہ صحافت‘‘ کو جنم دیا وگرنہ ہزاروں سال کی تاریخ میں ابلاغ عامہ انسان کی ضرورت تو رہی لیکن یہ باقاعدہ پیشے میں ڈھل کر معاشرے کے لئے اتنی مؤثر اور نتیجہ خیز نہ ہوئی جو ظہور صحافت سے ہونا شروع ہوئی جس کی بدولت ا نسانی تہذیب و ترقی کی بعد از پرنٹنگ مشین 500سو سالہ کامیابیاں ہزاروں سال کے ترقیاتی عمل کی کامرانیوں پر حاوی ہوگئے۔ گویا یہ صرف انسانی ابلاغ کی تاریخ ہی نہیں بلکہ پوری تہذیب انسانی کے عمل کا سنگ میل ثابت ہوئی ۔شرف انسانی کا کمال یہ ہے کہ پرنٹنگ مشین کی ایجاد سے دنیائے ابلاغ عامہ کی تشکیل کا آغاز ہی سنگ میل نہ بنا، اس کا فالو اپ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی حیران کن جدیدایجادات کی صورت میں آیا۔ گھنٹوں اور منٹوں میں ٹیکسٹ کی بڑی تعداد طباعت کے ساتھ تصویر کی ممکن اشاعت ،پھر آواز کی ریکارڈنگ، ویڈیو براڈ کاسٹنگ، پھر ڈائریکٹ براڈ کاسٹنگ، ٹی وی، رنگین ٹی وی سٹیلائٹ کمیونیکیشن ،انٹرنیٹ اور اب عالمی سطح کا سوشل میڈیا۔ سبحا ن اللہ، اللہ تعالیٰ کےعطا کئے انسانی اشراف، عقل سلیم اور ارفع ابلاغی صلاحیت کے سحر انگیز نتائج پر غور تو فرمائیں۔ کینیڈا کے ویژنری سوشل سائنٹسٹ مارشل مکلوہن نے 60کے عشرے میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی اس سحر انگیز نہ رکنے والی ایڈوانسمنٹ کی بنیاد پرVisualizeکیا تھا کہ ابلاغی ٹیکنالوجی کے یہ معجزے ایک روز دنیا کو ’’گلوبل ویلج‘‘ میں تبدیل کردیں گے، کیا یہ معجزہ رونما ہونہیں رہا؟ کہ کبھی خبر آتی ہے کہ حیدر آباد کے25سالہ نوجوان نے 40سالہ ملائیشین کو نیٹ سے دلہن بنالیا اور کبھی یہ کہ پاکستانی مزدور اور امیر جاپانی خاتون نے انٹرنیٹ پر ہونے والی دوستی شادی میں تبدیل ہوگئی۔ اپنے کچن سے لاہور ی ماں، نیویارک میں نویلی دلہن بیٹی کو سرتاج کو زیر کرنے کے لئے وڈیو کالنگ پر مزے مزے کے کھانوں کے گر سکھاتی ہے، جو وہ بیٹی کو دوران تعلیم نہ سکھا سکی۔ گلوبل ولیج تو کیا، دونوں کا گھر ’’گلوبل ہوم‘‘ نہیں بن گیا؟
اس تناظر میں عملی اور تدریسی صحافت کی 42سالہ خاک نشینی کے بعد بندے کا دوسرا اور مکمل سنجیدہ نوٹس یہ ہے کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے ’’پیشہ صحافت‘‘ کو جو حیرت انگیز اور تیز تر معاونت دے کر اسے مشن ،پیشہ ، تحریک، انقلاب اور انڈسٹری بنایا، اس حساب سے پیشہ صحافت نے معاشرے کو ڈلیور نہ کیا۔ انسانی معاشرے کو سرو کرنے کے لئے اس کے مقاصد صدیوں سے محدود چلے آرہے ہیں۔ ہمارے شہر ملک اور دنیا میں کیا ہورہا ہے؟ کا تجسس ختم کرنے کے لئے اطلاعات پہلی صحافتی پروڈکٹ کی فراہمی، ہاں’’رائے عامہ‘‘ جیسی طاقتور کمیونیکیشن پراڈکٹ، تفریح عامہ اور تعلیم عامہ، آخرالذکر دونوں مقاصد انتہائی لو پروفائل میں بذریعہ صحافت معاشرے کو نصیب ہیں، پھر میڈیا نے معاشرے کو اپنی جن پراڈکٹ کا عادی بنادیا ہے، میڈیا اور خود معاشرہ سمجھتا ہے کہ ’’بس میڈیا کا یہ ہی کام ہے‘‘ گویا ابھی روایتی مقاصد بھی پورے نہیں ہورہے، یعنی تعلیم عامہ اور مطلوب تفریح عامہ، ہر دو بری طرح نظر انداز ہیں، جو صحافیوں کی ادب نواز صلاحیتوں کو چیلنج کرتے ہوئے صحافتی تخلیق کا چیلنج دیتی ہیں، خصوصاً ایسے میں جبکہ خود ادیب اور شعراء روایتی ،تاہم اہم اور طاقتور صحافت کے اسیر ہوئے جاتے ہیں۔ کچھ سیاسی صحافی بننے کے لئے کہ شاید تلاش آسودگی کا نتیجہ خیز شارٹ کٹ نتیجہ یہ ہی ہے، پاکستانی ماڈل تو اس کا واقعی کامیاب ہے لیکن اپنی چال بھولنا بھی ایک بڑا خسارہ نہیں؟
اسی پس منظر میں گزشتہ روز اسلام آباد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ’’لٹریچر کارنیوال۔17‘‘ میں ’’ادب اور صحافت‘‘کے موضوع پر نشست میں صحافت اور ادب دونوں کے مقاصد جناب خورشید ندیم نے یہ نقطہ پیش کیا کہ صحافت سے کوئی اور مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنی خدمات اپنے متعین مقاصد کے مطابق انجام دے رہی ہے، خواہ یہ کسی کو برا لگے یا اچھا‘‘۔اس پر اختلاف کا اظہار میرے لئے ضروری ہوگیا۔ پیشہ صحافت جتنا پھلا پھولا ہے اور خود صحافی بھی، پاکستان کی حد تک کیا انہوں نے اس کے مطابق معاشرے کو ڈلیور کیا ہے؟ بحیثیت مجموعی، نہیں۔ تاریخ تو یہ ہے کہ’’پارٹیشن آف انڈیا ا ور قیام پاکستان‘‘ جیسے عظیم مقاصد ہمارے بزرگوں کے ادب و صحافت کے ذریعے حاصل ہوئے، آج پاکستان میں کرپٹ مافیا کا راج، اربوں اور کھربوں کی کرپشن کے بعد بھی رائج ’’قانون‘‘ سے ہونے والی ضمانت بیرون ملک آسان فرار کے لئے ہوائی اڈوں پر ای سی ایل کی رسی توڑ دیتی ہے۔ روشنی و روزگار کے اپنے عظیم شہر کو ہم نے غلاظت کی پہاڑیوں میں تبدیل کردیا۔ نہ پانی بجلی نہ گیس۔ اب انتخابی سال آنے کو ہے اور روایتی سیاست کی مکاری نے جھوٹے وعدوں اور عوام کے غم کا ڈرامہ رچانا شروع کردیا۔
بلاشبہ پاکستان کی قومی صحافت، پوری دنیا بشمول ترقی یافتہ آزاد جمہوری ممالک کی صحافت کی طرح طاقتور طبقات، اولین سیاستدان افسر شاہی، بزنس ٹائیکونز، شو بزنس پینل مختلف الاقسام مافیاز ، مذہبی لیڈروں، بڑے بڑے مجرموں اور دہشت گردوں کو جیسے اپنے ایجنڈے میں جگہ اور وقت دینے پر مجبور وبے کس معلوم دیتی ہے کہ طبقات میڈیا کے ایجنڈے پر چھائے ہوئے ہیں لیکن گزشتہ 9سال سے پاکستانی صحافیوں نے اپنی آزادی اور اس کے ساتھ قابل رشک آسودگی کے بعد اسٹیٹس کو میں جکڑے معاشرے کی بے کسی، بے بسی اور محرومی پر ترس کھاتے یا اپنے پیشے کو جلا بخشنے کے لئے’’اسپاٹ لائٹ جرنلزم‘‘ کو جزو اًاختیار کیا ہے، جسے نتیجہ خیز بنانا بھی صحافیوں کا ہی پیشہ ورانہ فرض ہے ، جیسا کہ انہوں نے وکلاء تحریک کو بے مثال معاونت سے اوپر کی سطح پر عدلیہ کا اعتبار ایک حد تک تو بحال کیا۔ اسٹیٹس کو کے اندھیرے میں کرپشن، حکمرانوں کی غیر آئینی حرکات، ان ہی کی لاقانونیت اور جوں کے توں حکمرانہ رویہ پر لائٹ تو خوب ڈالی اور ڈال رہے ہیں لیکن مقابل درباری صحافت کا زور بھی کوئی کم نہیں لیکن’’میڈیا ٹرائل‘‘ جیسے الزامات کے باوجود اس کا نتیجہ اب تک ا بتدائی نتائج کی صورت میں تادم نکلا ہے کہ احتساب گڈ گورننس ، انسداد کرپشن، الیکشن کمیشن کی لو کپیسٹی، تھانہ کچہری کلچر بمقابلہ مقامی حکومتیں۔ ہماری سیاسی ابلاغ میں جگہ بنا گئے تو یہ کریڈٹ یقیناً نئے صحافتی شعور کا ہے۔ معاشرہ تو واقعی مطالبہ نہیں کرے گا، سو خورشید ندیم صاحب مطمئن رہیں، لیکن میڈیا وہ ہی معاشرے کا خادم اور مطلوب پیشہ ورانہ کردار کا حامل ہوگا جو ظہور پذیر ضرورتوں کو خود سمجھ کر پڑھ کر ایجنڈا سیٹنگ میں ان قومی و عوامی ضروریات کو اپنے ایجنڈے میں سموئے گا۔ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں شناخت کے بحران میں مبتلا میڈیا ہائوسز کے میڈیا لارڈز اور جدید صحافت کا چیلنج ہے۔

.
تازہ ترین