• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے دو کارڈ موصول ہوئے۔ ایک سینیٹر سسی پلیجو کی طرف سے تھا اور دوسرا اردو کی بے باک شاعرہ ناصرہ زبیری کی جانب سے۔ دونوں کارڈز کتابوں کی رونمائی کی تقریب سے متعلق تھے، تیسرا کارڈ مجھے پہلی تقریب میں نفسیہ شاہ کی صورت میں ملا، انہوں نے بہ زبان خود کہا کہ ’’....میری کتاب کی رونمائی میں ضرور آنا....‘‘ یہ تینوں تقاریب اسلام آباد میں ہوئیں۔ پہلی تقریب میں پہنچتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو امینہ سید نے پورا ادبی میلہ سجا رکھا ہے، ادبی میلے پر کراچی کا رنگ غالب تھا مگرموسم اسلام آباد کا تھا اس لئے ادبی میلہ اور بھی خوبصورت ہوگیا جب ادب اورموسم دونوں خوبصورت ہوں تو حسن کو شکست کون دے سکتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید سے برسوں پہلے ایک ملاقات سیدہ عابدہ حسین کے گھر پر ہوئی تھی، کتابیں بہت سے لوگ شائع کرتے ہیں مگر کتابوں کو چھاپ کر، انہیں سجانا، پیش کرنا اور پھر ادبی میلوں کی رونق بنانا امینہ سید ہی کا کام ہے۔ ویسے تو اس ادبی میلے سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے علم و ادب اور صحافت و ثقافت کے حوالے سے پورا ہفتہ یونیورسٹی میں یادگار پروگرام کروائے۔ اب سننے کو مل رہا ہے کہ رواں ہفتے کے آخر میں ایک ’’سرکاری ادبی میلہ‘‘ بھی ہورہا ہے، ظاہر ہے اس میلے میں وہی لوگ شریک ہوں گے جو سرکار کے منظور نظر ہیں، ایسا کوئی بڑا ادیب اور شاعر اس میلے میں شریک نہیں ہوسکے گا جس سے ’’سرکار‘‘ نالاں ہو، سرکاری میلوں میں عام طور پر ’’سرکار‘‘ کی واہ واہ ہوتی ہے لہٰذا ہمیں تو اس واہ واہ سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی ملکی حالات ایسے ہیں کہ ’’سرکار‘‘ کو شاباش دی جاسکے۔
امینہ سید کے میلے کی بات کرتے ہیں۔ کھلی فضا میں قائم اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کے ایک ہال میں سینیٹر سسی پلیجو کی والدہ اختر بلوچ کی کتاب پر گفتگو ہورہی تھی، یہ قیدی عورت کی ڈائری تھی، اس میں جدوجہد کے وہ تمام مراحل شامل تھے جو انہیں پیش آئے۔ آمریت کے خلاف جدوجہد کے علاوہ اس کتاب میں آمرانہ سماجی رویوں سے متعلق بھی باتیں شامل ہیں۔ یہ کتاب سندھی میں لکھی گئی اور پھر اس کتاب کے تراجم دوسری زبانوں میں ہوئے۔ تقریب کے اختتام پر باہر لان میں یہ خاکسار، سینیٹر اکبر خواجہ اور مجاہد بریلوی سے مصروف گفتگو تھا کہ اچانک خوبصورت سینیٹر سسی پلیجو اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ تشریف لے آئیں، مجھے ان سب سے متعارف کرواتے ہوئے کہنے لگیں ’’....لوگ میرا تعارف کرواتے ہیں اور میں آپ کا تعارف کروا رہی ہوں....‘‘ خیر اس تعارفی تقریب کے بعد ایک شاعرہ آگئیں اور آتے ہی مجھے کہنے لگیں ’’....آپ کل مشاعرہ میں آرہے ہیں....‘‘ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں بغیر دعوت کے کہیں نہیں جاتا، مجھے اس مشاعرہ کا دعوت نامہ نہیں ملا، ہاں البتہ میں کل نفیسہ شاہ کی کتاب کی تقریب میں آئوں گا، میرے لئے یہ تقریب اس لئے اہم ہے کہ ایک تو اس میں تعصب کے بارے میں گفتگو ہوگی اور دوسرے اس تقریب میں شیری رحمٰن جیسی دانشور آرہی ہیں۔ خیر اس تقریب میں جتنی بھی گفتگو ہوئی وہ بڑی اہم تھی کیونکہ یہ گفتگو معاشرے کے متعصبانہ رویے کے بارے میں تھی، مظلوم طبقات کو کہاں کہاں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں خود نفیسہ شاہ اور بشریٰ گوہر کی گفتگو اہم تھی، نفیسہ شاہ ایک عرصے تک صحافتی خدمات انجام دیتی رہیں پھر ضلع ناظم بنیں اور آج کل قومی اسمبلی کی رکن ہیں جبکہ بشریٰ گوہر پچھلی اسمبلی میں ایک متحرک رکن رہی ہیں، یہاں جو گفتگو شیری رحمٰن نے کی وہ بہت اہم اور قابل توجہ تھی انہوں نے معاشرے کے مجموعی رویوں پر بات کی پھر معاشرے کے عورت اور اقلیت سے متعلق تعصب کی بات کی اور پھر جنونی مذہبی متعصب افراد کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ، اس کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سینیٹر شیری رحمٰن کے پائے کی کوئی خاتون نہیں،، شیری رحمٰن اپنی گفتگو میں ذہانت کو بروئے کار لاتی ہیں، اپنے علم کی دھاک بٹھاتی ہیں، ان کی گفتگو سے کتاب دوستی ٹپک رہی ہوتی ہے، شیری رحمٰن بھی صحافت کے راستے سیاست میں داخل ہوئیں اور شاید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد یہ وہ قابل ترین خاتون ہے جو پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہیں۔ تقریب میں شیری رحمٰن نے اپنے حوالے سے بھی کچھ باتیں کیں، خاص طور پر جنونیوں کی دھمکیوں کا تذکرہ کیا اور پھر کہنے لگیں کہ ’’....مجھے کئی دوست بھی کہتے ہیں کہ ملک سے باہر شفٹ ہو جائیں مگر میرا جواب ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، پاکستان میری شناخت ہے، میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی، مجھے پاکستان سے محبت ہے، پاکستان میرا دیس، میرا گھر ہے اوراپنے گھر کو بھلا کون چھوڑتا ہے، میں اپنی شناخت کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں....‘‘ کاش دولت کو باہر منتقل کرنے والوں کے جذبات بھی شیری رحمٰن کی طرح ہوتے، کاش وہ اپنے گھر کو نہ لوٹتے، اپنے گھر میں ڈاکے نہ ڈالتے، اپنے وطن کو اپنا گھر سمجھتے۔ تقریب ختم ہوئی تو شیری رحمٰن نے بک اسٹالز کا رخ کیا، وہ بک اسٹال سے نئی کتابیں خریدتی اور کچھ نئی کتابوں کا بتا کر حیران کرتی جاتیں، بعد میں مجھے شفیق سولنگی نے بتایا کہ محترمہ شیری رحمٰن ہر مہینے کتابوں کے تین چار بڑے اسٹوروں پر جاتی ہیں، نئی آنے والی کتابیں خرید کر لاتی ہیں اور پھر انہیں ذوق و شوق سے پڑھتی ہیں، کاش ہمارے باقی سیاسی رہنمائوں کی بھی کتابوں سے ایسی دوستی ہوتی، انہیں تو صرف دولت سے پیار ہے، دولت کے حصول میں انہیں جائز ناجائز کا لحاظ بھی نہیں، وہ دولت کی محبت میں اندھے ہو چکے ہیں انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ دولت، قبر کا حصہ نہیں بنتی، قبر کا حصہ صرف اعمال بنتے ہیں۔
تیسری کتاب ’’تیسرا قدم‘‘ تھا۔ یہ ’’تیسرا قدم‘‘ ناصرہ زبیری کا ہے۔ ناصرہ زبیری ’’آج‘‘ کی شاعرہ ہے، روایت سے جڑی ہوئی، لفظوں سے کھیلتی ہوئی، موسموں کو شاعری میں اتارتی ہے، پتہ نہیں یہ خوبصورت شاعرہ اپنی شاعری میں کیکر اور کنویں کے تذکرے کیوں اتارتی ہیں حالانکہ بہت سی شاعرات ایسے لفظوں سے بھی نابلد ہیں۔ ناصرہ لاہور کی تھی، شہاب اسے کراچی لے گئے، وہ درمیان میں کہیں اسلام آباد میں بھی رہی، یہ سارےرنگ، سارے مزاج اس کی شاعری میں نظر آتے ہیں ان تینوں شہروں میں کہیں درمیان میں گائوں بھی آجاتے ہیں۔ کیکروں کی خوشبو گائوں والوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے، اسی لئے تو اس تقریب میں طارق چوہدری، عاصمہ شیرازی اور نیئر علی کے علاوہ وہ سب لوگ تھے جنہیں اپنی ثقافت سے پیار ہے، شاعری پر گفتگو حمید شاہد کی تھی اوپر سے محبوب ظفر کا محبوبانہ تڑکہ بھی تھا۔ ناصرہ زبیری کی شاعری پر کسی دن پورا کالم لکھوں گا، آج ادھورا کام کرتا ہوں، فی الحال محبت کی اس خوبصورت شاعرہ کے دو اشعار پیش کرتا ہوں۔
وعدہ بھی اس نے سوچ کے کرنے نہیں دیا
اور اس کے بعد مجھ کو مکرنے نہیں دیا
بے خوف کردیا ہمیں تعویذ عشق نے
رسوائی کی بلائوں سے ڈرنے نہیں دیا

.
تازہ ترین