• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میں نے پکّا ارادہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے میں آپ کو ایک ناقابل تردید حقیقت سے آگاہ کر کے حیران کر دوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ حیران کن بات سننے کے بعد آپ صرف حیران ہوں گے، پریشان نہیں ہوں گے، ورنہ ہوتا یوں ہے کہ حیران ہونے کے بعد لوگ خود بہ خود پریشان ہونے لگتے ہیں مگر اس مرتبہ حیران ہونے کے بعد آپ پریشان نہیں ہوں گے۔ پریشانی جن کے نصیب میں لکھی ہوئی ہے وہ لوگ عرصۂ دراز سے اس پریشانی میں مبتلا ہیں، وہ لوگ اپنی پریشانی سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ حیران ہونے کے بعد اب وہ پریشان نہیں ہوتے۔ حیران کن بات بتانے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تمہید دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بات سننے کے بعد آپ حیرت سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو سکیں۔
جو کام کاج ہماری روٹی، روزی کا سبب بنتا ہے وہی کام کاج ہمارا اوڑھنا بچھونا بنتا ہے۔ اس کام کاج سے وابستہ تمام کیفیات لاشعوری طور پر ہماری عادات، اطوار اور رویّوں میں سرایت کر جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ لوگ تاعمر سیکھنے سکھانے کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ مزاج کے کبھی گرم، کبھی نرم، آپ کی اصلاح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے مگر ایسے لوگ جو درس و تدریس کی نچلی سطح بلکہ بنیادی سطح سے وابستہ ہوتے ہیں یعنی پرائمری ٹیچر ہوتے ہیں وہ لوگ تاعمر ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ جن لوگوں کی روزی روٹی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے کے کام سے وابستہ ہوتی ہے وہ لوگ بڑے دبنگ اور رعب داب والے ہوتے ہیں۔ کسی کو ذلیل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اوروں کی بے عزتی کرنا، کسی کے منہ پر کالک ملنا، کسی کو بلاوجہ پکڑنا یا پکڑوانا ان کیلئے شغل ہوتا ہے۔ ان کی نگاہوں میں ہر شخص مشکوک ہے۔ کچھ لوگ ڈاکٹرکے پیشے سے اپنی روزی، روٹی کماتے ہیں۔ چھینک مارنے والا ہر شخص ان کی نظر میں نزلہ، زکام اور فلو کا مریض ہوتا ہے۔ وہ آخری عمر تک لوگوں کو طبّی مشورے دیتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ عدل اور انصاف سے روزی کھاتے ہیں۔ جج ہوتے ہیں، منصف ہوتے ہیں۔ وہ زندگی بھر نجی زندگی میں بھی فیصلے صادر کرتے رہتے ہیں۔ دنیا چھوڑنے سے پہلے آخری فیصلہ سنا کر جاتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جس کام سے آپ روزی، روٹی کماتے ہیں اس کام سے وابستہ کیفیات لاشعوری طور پر آپ پر طاری ہو جاتی ہیں۔
اگر آپ صنعت کار ہیں تو پھر آپ زندگی بھر لوگوں کو اپنا مزدور سمجھتے ہیں۔ صنعت کار جانتے ہیں کہ آج کا مزدور ٹریڈ یونینسٹ ہوتا ہے۔ ان کی اپنی تنظیمیں ہوتی ہیں۔ وہ جب چاہیں صنعت کار کا بٹہ بٹھا سکتے ہیں، صنعت کا پہیہ جام کر سکتے ہیں اس لئے ایک کامیاب صنعت کار بہت احتیاط سے مزدوروں سے ڈیل کرتا ہے۔ یہ رویّہ تمام عمر ایک صنعت کار کی زندگی سے جھلکتا رہتا ہے۔ وہ مزدوروں کو کچلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ مزدور اپنی تنظیموں سے جڑے ہوتے ہیں۔ یونینسٹ ہوتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مرنے، مارنے کیلئے تیار رہتے ہیں لہٰذا ایک کائیاں صنعت کار مزدور کو کبھی اس نہج تک زچ نہیں کرتا کہ وہ بغاوت پر اتر آئے۔
مزدور کے برعکس کسان، ہاری، کاشت کار، مزارع کی کوئی تنظیم نہیں ہوتی۔ ان کی کوئی ٹریڈ یونین نہیں ہوتی۔ ایک مجبور، بے کس اور مفلس فرد کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایک بے انتہا طاقتور زمیندار کے آگے اس کی حیثیت ایک ادنیٰ غلام سے زیادہ نہیں ہوتی۔ایک ہاری خوفزدہ ماں، باپ کے ہاں جنم لیتا ہے۔ خوفزدہ ماحول میں ڈر ڈر کر بچپن گزارتا ہے۔ ڈرتے ڈرتے لڑکپن گزارتا ہے اور اپنے سہمے ہوئے والد کے ساتھ کھیتوں میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ جوان ہونے سے بہت پہلے وہ ہاری بن جاتا ہے۔ وہ زمیندار کی زمینوں پر ہل چلاتا ہے، بیج بوتا ہے، فصل کاٹ کر زمیندار کے گوداموں میں اناج کے انبار لگاتا ہے اور خود ایک نوالے کو ترستا ہے۔ زمیندار صرف زمیندار نہیں ہوتا، وہ اپنے قبیلے کا سردار سائیں ہوتا ہے، کوئی زمیندار پیر سائیں ہوتا ہے، وہ اپنی زمین پر کام کرنے والے کسانوں کا مالک ہوتا ہے، ان کا آقا ہوتا ہے، ان کا بھوتار ہوتا ہے، ان کا وڈیرہ ہوتا ہے۔ ایک کسان سہما ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور سہما ہوا اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ سرداروں اور پیر سائیوں کے معاشرے میں ایک کسان ایک ہاری کی حیثیت کیڑوں، مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ غربت، خوف، جہالت کے اندھیروں میں زندہ رہنے والے ہاری اپنے زمیندار، سرداروں اور پیر سائیوں کا ووٹ بینک ہوتے ہیں۔ سردار اور پیر سائیں ان پڑھ اور ڈرے ہوئے کسان کے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں، مشیر بنتے ہیں، وزیر بنتے ہیں، وزیراعلیٰ بنتے ہیں۔ وہ سردار سائیں، پیر سائیں آپ کو، مجھے، ہم سب کو اپنا ہاری، اپنا کسان سمجھتے ہیں۔ مفلسی، غربت، خوف، جہالت میں گھرا ہوا اندرون سندھ سرداروں اور پیر سائیوں کا مضبوط ترین ووٹ بینک ہے۔ اندرون سندھ کی حالت زار پر کسی نے آج تک وائٹ پیپر نہیں لکھا ہے۔ تمہید تمام شد۔
اب آپ حیران ہونے کیلئے تیار ہو جائیں۔ سندھ اسمبلی کے ایم کیو ایم ممبران اور دو، تین پٹھان ارکان کو چھوڑ کر تمام کے تمام باقی ممبران زبردست زمیندار، سردار اور پیر سائیں ہیں۔ پیدا ہونے سے اسمبلی ممبر بننے تک ان کی گٹھی میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ سندھ میں چلتی پھرتی ہر شے، ہر شخص ان کا خادم ہے، ان کا کسان ہے، ان کا ہاری ہے۔ نائب قاصد سے لے کر سیکرٹری اور آئی جی تک ان کے ذاتی نوکر اور ملازم ہیں۔ اندرون سندھ کو مکمل اندھیروں، جہالت، خوف اور ڈر میں جکڑ کر رکھنے والے سردار سائیں اور پیر سائیں سندھ پر راج کر رہے ہیں۔

.
تازہ ترین