• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مان لیجئے کہ اس بہیمیت اور وحشیانہ حرکت اور اس جرم اور اس گناہ کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم، ہمارے معاشرے کے نام نہاد سوچنے سمجھنے والے، ہمارا عام آدمی، ہمارا میڈیا، ہماری حکومت اور قانون و انصاف مہیا کرنے والے تمام ادارے۔ ان عناصر کو ہم نے ہی تو پروان چڑھایا ہے۔ ہم نے ہی تو انہیں موقع دیا ہے کہ وہ قانون، اخلاق اور انسانیت کو جب چاہیں اپنے پیروں تلے روندتے چلے جائیں۔ ہم نے ہی انہیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں۔ اب پورا معاشرہ ان کے پیروں تلے ہے۔ ہم ان سے ڈرتے ہیں۔ ہم خوف زدہ ہیں ان سے۔ اور یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ بہت پرانا ہے۔ مردان کی ولی خاں یونیورسٹی میں نوجوان مشعل خاں کا بہیمانہ قتل کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے..... معاف کیجئے میں نے بہیمانہ قتل کہہ کر جانوروں کی بے عزتی کی ہے۔ اس نوجوان کو جس طرح پہلے گولی ماری گئی، پھر اسے گھسیٹا گیا، اسے ٹھوکریں ماری گئیں اور اس کی میت جلانے کی کوشش کی گئی، ایسا تو جانور بھی نہیں کرتے۔ ....جی ہاں، یہ تو اسی سلسلے کی کڑی ہے جو سالہا سال سے ہمارے ہاں چلا آ رہا ہے۔ مذہب کی اہانت کا الزام لگائو اور جسے چاہو قتل کردو۔ 2009ء میں گوجرہ میں اسی الزام میں آٹھ انسان زندہ جلا دیئے گئے۔ ان میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔2011ء میں پنجاب کے گو رنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ ایک گارڈ نے گولیاں ماریں اور دوسرے گارڈ کھڑے دیکھتے رہے۔ 2014ء میں انسانی حقوق کے بے باک کارکن راشد رحمٰن خاں وکیل کو ملتان میں سب کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ توہین کے الزام میں گرفتار ایک شخص کی وکالت کر رہے تھے۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلا آ رہا ہے۔ چند ہفتے پہلے ننکانہ صاحب میں ایک معروف وکیل کو مار دیا گیا۔ اس کے بعد ایک اور شخص کو قتل کر دیا گیا۔ اور ہمارے حکمران اور ہمارے سیاست دان صرف اتنا زبانی جمع خرچ کرتے ہیں کہ ان واقعات کی مذمت میں بیان جاری کر دیتے ہیں۔ اور حکمران یہ اعلان کر کے جیسے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا۔ ادھر ان کا یہ بیان آتا ہے اور ادھر قانون صرف ہاتھ میں ہی نہیں لیا جاتا بلکہ پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔ خیر، اب یہ دیکھ کر تھوڑی سے تسلی ہوئی ہے کہ مردان کے انسانیت سوز واقعہ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا ہے۔ اب ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری عدالت عظمیٰ اس واقعہ کی چھان بین کر کے صرف مجرموں کو سزا ہی نہیں دے گی بلکہ اصل بیماری کی جڑ تک بھی پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ یہ عام بیماری نہیں ہے۔ یہ وہ سرطان ہے جس کی جڑیں ہمارے معاشرے کے جسم میں دور دور تک پھیل چکی ہیں۔ کون کم بخت مذہب یا رسالت کی اہانت برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمیں تو اس موضوع پر زبان کھولتے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن عدالت سے ہم یہ امید ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ اس کا ایسا حل ضرور نکالے گی کہ آئندہ اس قانوں کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ اور یہ قانون اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
پچھلے اتوار کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کا اسلام آباد جشن ادب ختم ہوا ہے۔ اس جشن کے تینوں دن مردان یونیورسٹی کا دل دوز سانحہ ہر اجلاس پر چھایا رہا۔ کوئی بھی اجلاس ایسا نہیں تھا جس میں اس سانحے کی گونج سنائی نہ دی ہو۔ لیکن آخری دن اسمبلی کی رکن اور پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے اپنے کلیدی خطبے میں جس دکھے دل سے اس سانحے کا ذکر کیا، اور جس رقت بھرے لہجے میں اپنا مقالہ پڑھا اس نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو نم نہ ہوئی ہو۔ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ساتھ ہم سب کو کھری کھری سنائیں۔ لیکن اسی جشن ادب میں ایک بار پھر ہمیں اپنے معاشرے کی ایک اور مہلک بیماری سے واسطہ پڑا۔ یہ بیماری ہے عدم برداشت۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی آدمی ہماری رائے یا ہمارے خیال سے اختلاف کرنے کی ذرا سی بھی جرأت کرے۔ کوئی شخص خواہ کتنی ہی علمی اور تاریخی اسناد کے ساتھ ایسی بات کرے جو ہمیں پسند نہ ہو تو ہم فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔ اور اس کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ علمی اور تحقیقی انداز تو یہ ہے کہ آپ دلائل کے ساتھ بات کریں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص تاریخی یا علمی طور پر صحیح بات نہیں کر رہا ہے تو تحقیقی اسناد کے ساتھ اس کی تردید کریں۔ جشن ادب کے ایک اجلاس میں پاکستان کے ستر سال کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ سعید حسن خاں ہمارے ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد کی تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رنگ بھرتے اور رنگ بدلتے دیکھا ہے۔ ان کی دسترس میں پاکستان کے اندر موجود تاریخی دستاویز ہی نہیں رہی ہیں بلکہ لندن میں محفو ظ دستاویز تک بھی ان کی رسائی رہی ہے۔ اگر وہ پورے وثوق سے کسی تاریخی حقیقت کا ذکر کرتے ہیں تو پہلے ہمیں بھی ان دستاویز تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہئے اس کے بعد ہی ان کا سامنا کرنا چاہئے۔ مگر اس اجلاس میں ایسا نہیں ہوا بلکہ نعرے بازی اور شور شرابہ شروع کر دیا گیا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ سعید حسن خاں نے بالکل درست کہا کہ ہمیں تاریخ پڑھنا چاہئے اور تاریخ میں صرف ان کتابوں اور ان مصنفوں کو ہی نہیں پڑھنا چاہئے جو ہماری پہلے سے موجود رائے کو مزید پختہ کر دیتے ہیں بلکہ وہ کتابیں اور وہ لکھنے والے بھی پڑھنے چاہئیں جو ہماری رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ تاریخ کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم تاریخ کو مذہبی عقیدہ سمجھ کر پڑھیں گے تو پھر وہ تاریخ نہیں رہے گی کچھ اور ہی ہو جائے گی۔ پاکستان کے قیام کو ستر سال ہو نے والے ہیں۔ اس عرصے میں بہت سی ایسی دستاویز اور سیاسی اور سماجی رہنمائوں کے بہت سے ایسے خطوط سامنے آئے ہیں جنہوں نے ہمیں اپنی تاریخ سمجھنے کے نئے راستے دکھائے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسی تحقیق سے خدانخواستہ پاکستان کو نقصان پہنچے گا تو وہ غلطی پر ہے۔ قومیں اپنی تاریخ کے مختلف پہلوئوں پر تنقیدی اور تحقیقی نظر ڈالنے سے ہی مزید مضبوط ہوتی ہیں۔
ہمارے اندر عدم برداشت کا مادہ کتنا طاقتور ہوتا جا رہا ہے؟ اس کا ایک ثبوت اس مشاعرے میں بھی ملا جو جشن ادب کا ہی حصہ تھا۔ کشور ناہید نے اس مشاعرے میں اپنی ایک پرانی نظم پڑھی۔ یہ نظم ان کے اس شعری مجموعے میں بھی شامل ہے جو کافی عرصے پہلے چھپا تھا۔ یہ نظم کشور کے تمام ہی پڑھنے والوں نے پڑھی ہے۔ لیکن کبھی کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوا۔ اعتراض ہوا تو ایک صاحب کو اس مشاعرے میں۔ کشور نے وہ نظم پڑھی تو وہ صاحب غصے میں کھڑے ہو گئے۔ اور کہنا شروع کر دیا کہ فلاں ادارے یا فلاں فلاں کے بارے میں منہ کھولنے کی جرأت کیسے کی جا رہی ہے۔ ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ گویا اب شعروں پر بھی سنسر لگنا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ سنسر حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی طرف سے لگایا جا رہا ہے۔ ہم تو ہندوستان کے اس شخص کو برا بھلا کہتے ہیں جو فہمیدہ ریاض کی نظم سن کر پستول نکال کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اب یہ سب ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یہ نہایت ہی خطرناک رجحان ہے۔ کشور ناہید کی نظم میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ شکر ہے حبیب جالب کے زمانے میں عام آدمی کا یہ سنسر موجود نہیں تھا۔ ورنہ وہ اپنی نظم ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا‘‘ کہیں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اور اگر وہ اپنے مخصوص ترنم میں وہ نظم نہ پڑھتا تو ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اسی کے ترنم میں وہ نظم اپنے جلسوں میں کیسے پڑھتے۔ خیر، اب بھی وقت ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے اس خطرناک رجحان پر غور کریں۔ ہم سوچیں کہ پاکستان کا معاشرہ کدھر جا رہا ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام ہمیں کیا سکھا رہا ہے؟ مردان کا خونی سانحہ کسی مدرسے میں نہیں ہوا، ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ یہ ہماری آج کی تعلیم کا ہی تو نتیجہ ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اظہار رائے اور ضمیر کی آزادی کے ساتھ اپنے وطن کو ترقی کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں یا پھر اسے جہالت کی تاریکیوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے صحیح علم اور تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہے۔ یہ تنقیدی بصیرت ہی عدم برداشت کی بیماری سے بھی نجات دلا سکتی ہے اور اس قتل عام سے بھی جس کا ایک نمونہ ہم نے مردان یو نیورسٹی میں دیکھا۔ مان لیجئے کہ اس جرم اور اس گناہ میں ہم سب برابر کے شریک ہیں کہ ہمارے اندر مجرم کا ہاتھ پکڑنے کی جرأت ختم ہو چکی ہے۔

.
تازہ ترین