• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں بجلی کیوں نایاب ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ تو بجلی کی پیداوار کا پرائیویٹ سیکٹر میں ہونا، بجلی کے تاجر بجلی کسی خیر سگالی یا کسی قومی خدمت کے تحت نہیں پیدا کر رہے انہوں نے خالص تجارتی نقطہ نگاہ سے سرمایہ کاری کی ہے پندرہ سولہ مختلف بجلی پیدا کرنے کے ادارے کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ سرکاری ذرائع اپنی جگہ کام کر رہے ہیں جیسے جیسے موسم میں شدت آتی جائے گی ویسے ویسے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا جائے گا بجلی کے تاجر اپنے نفع کے لئے ہی بجلی کی تجارت کر رہے ہیں اسی سبب بجلی مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے تاجر کو اپنے ہونے والے منافع سے غرض ہوتی ہے اسے کوئی فرق نہیںپڑتا کہ صارف پر کیسا اور کس قدر بوجھ پڑ رہا ہے۔
ان کی ساری سرمایہ کاری اس لئے ہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں یہی وجہ ہے کہ چھ روپے یونٹ پیدا ہونے والی بجلی کو وہ سولہ روپے یونٹ میں فروخت کر رہے ہیں ان تاجروں کا اثر و رسوخ ہی ہے کہ تھر میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی جو بقول جوہری سائنسدان جناب ثمر مبارک مند چھ روپے یونٹ میں حاصل ہوسکتی ہے جس کا انہوں نے کامیاب تجربہ بھی کرلیا ہے حکومت وقت کو تھرکول پاور پلانٹ چلا کر دکھا بھی دیا ہے جس کی تیاری میں ملک و قوم کی نو ملین خطیر رقم خرچ ہوئی اس میں 120 ملین رقم خرچ ہونا ہے لیکن اسے اس لئے بند کردینے کا حکم دے دیا گیا ہے کیونکہ اسے چلانے کے لئے فی الحال فنڈ فراہم نہیں کیے جاسکتے۔ دیکھا جائے تو یہ سیاسی مسئلہ ہے یا یوں سمجھا جائے فی الحال ملک و قوم کو اگر بجلی فراہم کردی گئی تو آنے والے الیکشن کے لئے عوام کو کیا دیا جائے گا بجلی کا رونا رو کر جو ڈراما چل رہا ہے اس کا اختتام ہوجائے گا جو حکمران گزشتہ الیکشن میں بجلی کی فراہمی کی سیڑھی چڑھ کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں جو بار بار اعلان کرتے رہے ہیں کہ کبھی دو ماہ میں کبھی نوے دن میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیں گے عوام کو اپنے وعدوں سے رجھا کر بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرلیا اس کے بعد وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو رات گئی بات گئی تھرکول پاور پلانٹ جو تمام تر پاکستانی محنت کشوں اور سرمایہ کا نتیجہ ہے جس کے لئے بڑی رقم جو کئی ارب پر محیط ہے قرض لی گئی اس کی تکمیل کے باوجود فنڈز فراہم کرنے سے انکار کے باعث یہ منصوبہ بند ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بھی تھر میں ایک اور تھرکول پاور پروجیکٹ پر چین کے اشتراک سے کام ہو رہا ہے وہ بھی عنقریب 2018ء میں اپنی پیداوار شروع کرنے کے قابل ہوجائے گا، اس میں پاکستان اور چین کا مشترکہ سرمایہ لگ رہا ہے اور چین اور پاکستان کے ہی لوگ مشترکہ طور پر وہاں کام کر رہے ہیں اس کا کیا حشر ہوگا یہ اللہ ہی جانتا ہے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق جو انہوں نے مختلف اوقات میں مختلف ٹی وی پروگرامز پر کہا کہ اس منصوبے سے متعلق وزیر جناب احسن اقبال فنڈ دینے کو تیار نہیں پاور پلانٹ سے بجلی پیدا کر کے دکھانے کے باوجود فنڈ جاری نہیں کیے جا رہے معاملے کو لٹکا دیا گیا ہے اب مجبوراً اس تیار پلانٹ کو بند کرنا پڑے گا ،حکمران اپنے دوستوں، ساتھیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ان کے بجلی گھروں کو چلتا رکھنے کے لئے تھرکول پاور پلانٹ جس پر حکومت نے قرضہ لیا ہوگا وہ سرمایہ جس پر سود ادا کیا جاتا ہوگا12 ملین کا سرمایہ حکومت خود ڈبو رہی ہے جب تھرپاور پلانٹ بند ہوگا تو وہ کچھ ہی دنوں میں موسمی اثرات کا شکار ہو کر از خود ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح دیگر سرکاری شعبوں میں بننے والے پاور پلانٹوں کو تاخیری حربے استعمال کر کے ان کی تیاری کی رفتار کو صرف اس لئے روکا جا رہا ہے کہ آنے والے الیکشن کے موقع پر پاکستان کے عوام کو بجلی کا تحفہ دے کر زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کر کے ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوا جاسکے، ایسا ہی حال دیگر معاملات کا ہے۔
اب ایک بار پھر سیاسی میدان سجنے کو ہے آئندہ الیکشن کا الارم بجنے لگا ہے سیاسی پہلوانوں نے زور آزمائی کے لئے تیاریاں شروع کردی ہیں پیپلز پارٹی نے تو اپنے امیدواروں کی فہرست بھی درست کرنا شروع کردی ہے ن لیگ چونکہ حکومت میں ہے اس لئے اسے یقین ہے کہ فتح ان کے ہی مقدر میں ہے اور اب کے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا ٹنٹا بھی نمٹا دیں گے میاں نواز شریف نے کھیلنے کے لئے کئی کارڈ محفوظ کر رکھے ہیں لیکن ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ حکمران اس بار ایسے منہ کے بل گرنے والے ہیں کہ
ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے اب دیکھنا ہے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا کیونکہ ہر کوئی آنے والے وقت میں اپنی فتح کے سہانے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے عوام کے دکھوں میں مہنگائی میں غربت میں بے روزگاری میں اضافہ ہی کیا ہے ان آفات کا کوئی معقول بندوبست کسی نے نہیں کیا سیاست کی لنکا میں سب ہی باون گز کے ہیں میاں صاحب کے ساتھی ایک سے بڑھ کر ایک شاہ کے وفادار لیکن ہوا میں تحلیل ہونے والے موقع آنے پر نظر نہ آنے والے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان کے برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہیں زیادہ تر کا تعلق تو اس قبیلے سے ہے کہ جہاں دیکھی توا پرات وہیں گزار ساری رات۔ ان کے کچھ ساتھی تو ابھی سے پر تول رہے ہیں کچھ کو پانامہ فیصلہ کا انتظار ہے خود آصف علی زرداری جو مہم جوئی کے میدان میں اتر چکے ہیں وہ گلی گلی قصبہ قصبہ جانے اور مہم چلانے کا اعلان کرچکے ہیں وہ تو اپنا وزیر اعظم تک لانے کے خواب دکھا رہے ہیں یہ وقت میاں صاحب اور ان کی جماعت کے لئے پل صراط سے گزرنے کا ہے میاں صاحب اور ان کے حواری جانے کس زعم میں ہیں حالانکہ ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اگر حکمران اب بھی ہوش میں آجائیں اور کم از کم اس گرم اور شدید موسم میں بجلی لوگوں کو مہیا کردیں تو ہوا کا رخ پلٹ سکتا ہے ان کے دشمن بھی ان کے دوستوں کی صف میں آسکتے ہیں بات گو کہ بظاہر معمولی ہے لیکن بہت اہم اور ضروری ہے پانی کی فراہمی جو دن بدن نایاب ہوتا جا رہا ہے اور موسم گرما میں بجلی کی مانند پانی کی طلب بھی کئی گنابڑھ جاتی ہے اور وطن عزیز تو زرعی ملک ہے ہمیں تو ویسے بھی پانی کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اگر ضرورت کے وقت یا مشکل وقت میں عوام کی داد رسی ہوجائے تو وہ اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور میاں صاحب کو میدان جیتنے میں آسانی ہوسکتی ہے ورنہ میاں صاحب کے ساتھی تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کیوں نایاب ہے اس کی وجہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بتائی ہے وہ با اثر تاجروں کا حکمران پر اثر انداز ہونا اور اپنے ناجائز منافع پر اڑے رہنا اور اپنے منافع کے لئے حکومت وقت کو استعمال کرنا ، اس کے علاوہ بھی خود حکومت کے اپنے بجلی گھروں کی اگر فوری طور پر مناسب دیکھ بھال کرلی جائے تو وافر مقدار میں بجلی مہیا ہوسکتی ہے تمام بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کو ایسا کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت کار کو کام میں نہیں لا رہے جس سے بجلی کا شارٹ فال پیدا ہوگیا ہے، اگر حکومتی بجلی بنانے والے اداروں کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کردیا جائے اور توجہ دی جائے تو یہی ادارے ضرورت بھر بجلی فراہم کرسکتے ہیں۔

.
تازہ ترین