• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ حادثوں کا امپیکٹ اتنا شدید ہوتا ہے کہ آدمی فوراً ری ایکٹ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے اس سے بہتر شعر کم از کم میری نظر سے کبھی نہیں گزرا۔پتھر کی طرح میں نے ترا سوگ منایادامن نہ کیا چاک کبھی بال نہ کھولےناقابل یقین، ناقابل بیان، ناقابل تصورِ درندگی جسے فون کی سکرین پر دیکھنا بھی ممکن نہیں خاص طور پر اک ایسے شخص کے لئے جو فلم میں بھی تشدد ہوتا دیکھتے ہی اٹھ جاتا ہے۔ ٹی وی پر کوئی پروگرام کسی المیہ کی طرف بڑھتا دکھائی دے تو چینل تبدیل کردیتا ہے حالانکہ مشال کیس جیسی درندگی کوئی پہلی مثال تو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ذلت آمیز زوال کی زد میں پڑھے لکھے بھی آگئے تو کیسے ؟ میرا جواب یہ تھا کہ رونا ہی یہ ہے کہ پڑھے لکھے ہی تو ہیں نہیں مثلاً ہم بے شمار لفظ روٹین میں اکثر استعمال کرتے ہیں لیکن ان اہم ترین لفظوں کے معنی نہیں جانتے نہ ان الفاظ کے اوریجن، Roots اور ہسٹری سے واقف ہوتے ہیں مثلاً صبر، شکر، ثواب، امیر (بحوالہ امیر المومنین) زکوٰۃ، حج، صدقہ وغیرہ تو ظاہر ہے زبردست کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں تو اس کا علاج کیا ہے؟ عربی دان ہونا ضروری نہیں۔ جس طر ح ڈکشنری کنسلٹ کی جاتی ہے، اسی طرح قرآن پاک کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ’’لغات القرآن‘‘ سے استفادہ کیاجاسکتا ہے جو حیران کردیتی ہے۔ ذہن کے بند دروازے، کھڑکیاں، روشندان کھول دیتی ہے۔ دین کا فہم آسان بنا دیتی ہے، آدمی کو انسان بنا دیتی ہے۔ دھند ہٹ جاتی ہے، جالے اتر جاتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہم اردو، انگریزی، جیالوجی، آئی ٹی، زولوجی، بوٹنی، سائیکولوجی، شماریات، میتھمیٹکس، لا، انجینئرنگ اور طب وغیرہ میں کوالیفائی کرنے کے لئے تو بڑی ٹکریں مارتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں، لائبریریوں میں جاتے ہیں، اساتذہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں لیکن فہم دین کے لئے تھوڑا سا تردد بھی کیوں نہیں کرتے، پوری پوری زندگی سنی سنائی پر گزار دیتے ہیں حالانکہ اردو انگریزی میں مختلف تراجم پڑھنے کے بعد ’’لغات القرآن‘‘ سے رہنمائی لی جائے توزندگی سہل ہوسکتی ہے۔ غلطی کے امکانات بہت کم ہوسکتے ہیں لیکن یہ کرے کون؟نہ ماں باپ کہ قاری صاحب سے ناظرہ پڑھوا کر سمجھتے ہیں اپنا فرض پورا کردیا۔ رہ گئےاساتذہ تو انہیں بھی توفیق نہیں کہ وہ اپنا مضمون ہی ایمان اری اورجان ماری سے پڑھا دیں تو کسی احسان سے کم نہیں۔ایک تو اپنے اندر احساس ذمہ داری کا فقدان، دوسری طرف دشمنوں کے منصوبے اور سازشیں یعنی ہم زہر بجھی دو دھاری تلوار سے ذبح ہو رہے ہیں لیکن مسئلہ کے حل کی طرف متوجہ نہیں..... ہوں بھی تو یہ توجہ بہت وقتی اور سطحی قسم کی ہوتی ہے۔ بے حسی کے ساکت پانیوں پر کسی مشال کی لاش پتھر کی طرح گرتی، تھوڑا ارتعاش پیدا کرتی ہے اور بس پھر وہی سکوت مرگ طاری ہو جاتا ہے جو ہماری پہچان بن چکا۔ اقبا ل کا اشارہ بھی شاید ایسے ہی رویوں کی طرف تھا جب اس نے دعا دی؎خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردےکہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیںلیکن یہاں تو آئے روز طوفان پر بھی دھیان نہیں یا شاید ’’بحیرہ مردار‘‘ کے لئے طوفان بھی کسی اور قسم کا چاہئے۔ مجھے یہ خبر پڑھ کر قطعاً کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ را، موساد اوراین ڈی ایس جیسی ایجنسیوں نے پاکستان میں مذہبی فسادات کرانے کا منصوبہ مکمل کرلیا ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے کہ 300 فیس بک اکائونٹ ہیک کئے جائیں گے۔ ایک جعلی اکائونٹ سے توہین آمیز مواد، دوسرے سے اس کے خلاف فتوے اپ لوڈ کئے جائیں گےاور پھر کرائے کے لوگوں سے احتجاج، بلوے، فساد کرائے جائیں گے۔ اس شیطانی منصوبے کے تحت ہیکرز کے گروہ چندی گڑھ، امرتسر، دبئی اور افغانستان سے اس ناپاک سٹریٹجی پر عملدرآمد شروع کریں گے جبکہ پاکستان کے اندر بھی ان کے ایجنٹس اور آلہ کار موجود ہوں گے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے حساس اداروں نےبھی ان کےگرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے لیکن کیا یہ گھیرا تنگ کرنا کافی ہوگا یا ہمیں بھی اپنی جہالت زدہ جذباتیت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہوگی؟میں نے ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ جنرل ضیا ءالحق قوم کو اک ایسے منہ زور وحشی گھوڑے پر بٹھا گیا ہے جس کی لگامیں ہی نہیں،رکابیں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمےنے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میںکیا حکمران فکری اور اخلاقی طور پر اس قابل ہیں کہ اس بگٹٹ گھوڑے کاراستہ روک سکیں جو ہر شے کو روند کر گزر جاناچاہتا ہے؟ مجھے تو ان میں نہ بصیرت دکھائی دیتی ہے نہ جرأت سو ’’پاناما‘‘ کی طرح قسمت کے فیصلے کا انتظار ہے جو زیادہ دیر تک ’’محفوظ‘‘ نہیں رکھا جائے گا۔

.
تازہ ترین