• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر حکومت کے ناقدین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی ناپید ہے جبکہ حکومتی حلقے اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے معاشی ترقی کے مثبت رجحانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ ایک صدارتی امیدوار تھے تو تب تک وہ امریکہ کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ماہانہ جاری کئے جانے والے بیروزگاری کے اعداد و شمار کو جعلی اور خودساختہ قرار دیتے تھے لیکن جب سے انہوں نے صدارت کی گدی سنبھالی ہے اسی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے وہی اعداد و شمارہیں جن کو وہ فخریہ پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کابھی یہی حال ہے کہ ہر دور میں حزب مخالف ترقی کے بارے میں اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے مقابلے میں منفی رجحانات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے منفی رجحانات کے باوجود ملک ترقی کر سکتا ہے۔ مثلاً عالمی اداروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس وقت معاشی ترقی کی رفتار تقریباً 5فیصد کے قریب قریب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ملک اسی رفتار سے ترقی کرتا رہے تو ملکی پیداوار چودہ سال کے عرصے میں دگنی اور اٹھائیس سال میں چار گنا ہو جائے گی۔
حکومت کے ناقدین اس کے جواب میں بڑھتی ہوئی درآمدات کے نتیجے میں روز بروز پھیلتے ہوئے تجارتی خسارے کا ذکر کرتے ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ ملک کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اس لئے معاشی ترقی کے اعداد و شمار حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میںیہ منطق درست نہیں ہے کیونکہ مثبت معاشی ترقی کے باوجود تجارتی خسارہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ درآمدات کی طلب اس وقت بڑھتی ہے جب قومی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہو۔ ملک میں افراد اور کاروباری اکائیوں کی آمدنی اور بچتیں بڑھتی ہیں تو وہ درآمد شدہ چیزوں کی خریداری بڑھاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تجارت کا خسارہ اس لئے بڑھ رہا ہو کہ کاروباری حلقے سرمایہ کاری بڑھا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں مشینری اور آلات در آمد کرنے پر درآمدی اخراجات بڑھ رہے ہوں۔ لیکن اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ملک میں تعیشات کی درآمد بڑھ رہی ہے تو پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں مختلف شعبوں میں آمدنیاں بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے درآمدات کا تصرف بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کا تجارتی خسارہ بہت بھاری بھر کم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔ حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ درآمدات میں بہت کمی واقع ہو جائے اور ملک کا تجارتی خسارہ سکڑ جائے توکیا یہ مثبت رجحان کا آئینہ دار ہوگا؟ ہر گز نہیں کیونکہ معاشی بد حالی کے دور میں آمدنیاں کم ہوتی ہیں اور درآمدہ اشیاء کی طلب کم ہو جاتی ہے۔
مندرجہ بالا بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تجارتی خسارے میں اضافہ ہمیشہ مثبت اشاریہ ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ملک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو اور بالخصوص صنعتی سامان کی برآمد بڑھے۔ چین کا دنیا کے ساتھ تجارتی خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے کہیں بڑھ کر زیادہ ہیں۔ لیکن چین سات فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی کر رہا ہے، ماضی میں چین کی معاشی ترقی کی رفتار دس فیصد بھی رہی ہے۔ چین نے اپنی آبادی کو شدید انداز میں کم کیا اور ترقی کی رفتار کو تیز تر کر لیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کھربوں ڈالر ہیں، خود امریکہ پر چین کا قرضہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے الٹ پاکستان میں آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور صرف آبادی کے اضافے کی وجہ سے دو تین فیصد سالانہ معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ملک پانچ فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہا ہے تو اس کا بہت بڑا حصہ آبادی کے اضافے کی نذر ہوجاتا ہے۔
ناقدین کی یہ بھی دلیل ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کیسے ہو سکتی ہے جبکہ ملک میں امیر اور غریب میں فاصلے بڑھ رہے ہوں۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی سے اشرافیہ زیادہ فیضیاب ہو رہی ہو یعنی نئی پیدا ہونے والی دولت میں ملک کے بالائی طبقات کا زیادہ حصہ ہو۔ چین سے لے کر امریکہ تک یہی رجحان ہے کہ بالائی طبقات تیزی سے اپنی دولت بڑھا رہے ہیں جبکہ عوام کے حصے میں بہت کم آتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان مبالغہ آرائی کی حد تک موجود ہے۔ لیکن دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومی دولت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ بلکہ قومی دولت میں اضافہ ہوتا ہے تو بالائی طبقات کی آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
جب تک پاکستان جاگیرداری میں جکڑا ہوا زرعی معاشرہ تھا تو دولت کی تقسیم ایک حد تک منجمد ہو چکی تھی۔ یعنی جاگیردار امیر تھا اور کسان غریب لیکن جاگیردار کی دولت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا تھا۔ اب ملک میں زرعی پیداوار محض بیس فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ اسی فیصد دولت ملک کے دوسرے شعبوں (تجارت، صنعت، سروسز) میں پیدا ہوتی ہے اور اسی نئی دولت سے نیا امیر طبقہ پیدا ہوا ہے۔ پاکستان میں ریاستی وسیلوں کو استعمال کرنے کے نتیجے میں بھی ایک بہت بڑا نیا امیر طبقہ پیدا ہوا ہے لیکن اس کے بغیر بھی ملک میں نیا سرمایہ دار طبقہ پیدا ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بدعنوانیوں سے بھی اسی وقت ایک طبقہ امیر ہوا ہے جب ملک میں نئی دولت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یعنی پاکستان میں مسلسل معاشی ترقی ہو رہی ہے۔ دہشت گردی، بری گورننس اور بد عنوانیوں کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست رہی ہے لیکن اگر کلی حالات کو دیکھیں تو پچھلے چالیس سالوں میں قومی پیداوار کئی سو گنا بڑھ چکی ہے۔ اب جب دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے تو معاشی ترقی نے خود بخود رفتار تیز کر لی ہے۔
پاکستان میں دولت اور آمدنیوں کی منصفانہ تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جتنی معاشی ترقی ہوئی ہے اور جتنی وافر دولت پیدا ہوئی ہے اس سے ایک محدود طبقہ زیادہ فیضیاب ہوا ہے۔ عوام کو معیاری تعلیم اور صحت جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی ہوگا کہ عام شہری کی حالت بالکل نہیں بدلی:پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حد تک عوام کے حالات بھی بہت بدل چکے ہیں۔ اگر پاکستان میں گورننس کا نظام بہتر ہو جائے تو بہت جلد پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔

.
تازہ ترین