• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ نے ایک مرتبہ پھر ظلم و ستم کی سیاہ تاریخ دہرادی ہے۔ دنیا کے غریب ملک افغانستان پر سب سے بڑاغیرایٹمی بم سے حملہ کردیا ہے۔ یہ بم شام 7بج کر 32منٹ پر صوبہ ننگرہار کے ضلع آچن میں گرایا گیا۔ جس کا وزن 21 ہزار600 پائونڈ یعنی 11 ٹن ہے۔ یہ بم ایٹم بم کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن سمجھا جاتا ہے۔ اسے ’’مادر آف آل بمز‘‘ یعنی ’’بموں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ افغانستان میں پہلی بار یہ بم گرایا گیا ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ قارئین! انسانی تاریخ میں ایٹم بم بھی امریکہ نے ہی استعمال کیا۔ چھ اگست 1945ء کی صبح 8بج کر 5منٹ پر امریکی جہاز ’’بی 29‘‘ نے ہیروشیما پر ’’لٹل بوائے‘‘ نامی پہلا ایٹم بم گرایا۔ اس نے صرف 30سیکنڈ میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو لقمہ اجل بنادیا۔ 80سے 85ہزار افراد زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ اس کے تین دن بعد 9اگست کو امریکہ نے جاپان کے دوسرے شہر ’’ناگاساکی‘‘ پر ’’فیٹ مین‘‘ نامی ایٹم بم گرایا۔ یہ ہولناک بم 74 ہزار جاپانیوں کو آناً فاناً نگل گیا۔ جاپان کے دو اہم شہروں کی مکمل تباہی ہوئی اور مجموعی طور پر 2لاکھ 14ہزار لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد پوری دنیا میں امریکی درندگی کے خلاف شور اُٹھا۔ برا بھلا کہا گیا۔ احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ ’’امریکہ انسانیت کا دشمن‘‘ کے نعرے لگے۔ کیا مشرق اور کیا مغرب سب ہی نے اس درندگی کی مخالفت کی۔ مغربی میڈیا تک چیخ اُٹھا۔ ایسی ایسی اسٹوریز شائع ہوئیں کہ پتھر دل بھی موم ہوگئے۔ اس کے بعد یہ اُمید ہوچلی تھی شاید آئندہ کبھی انسانوں پر ایسا ظلم نہیں ہوگا۔ ہونا بھی یہی چاہئے تھا کہ امریکہ رہتی دنیا تک ’’توبہ تائب‘‘ ہوجاتا لیکن وہ باز نہ آیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہوگیا۔ تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے 1945ء سے 2017ء تک دنیا میں مجموعی طور پر 119جنگیں ہوئیں جن میں بارود کا کھلم کھلا استعمال ہوا۔ گھر جلے، شہر ویران ہوئے، لاشیں گریں، زخمیوں کی چیخوں اور مرنے والوں کی آہوں سے زمین اور آسمان کے دامن میں چھید ہوئے۔ ان سب جنگوں کے پیچھے ایک ہی ملک تھا۔ بعض جنگیں امریکہ نے براہِ راست لڑیں۔ بعض میں وہ شریک ہوا اور بعض میں اس کا اسلحہ استعمال ہوا۔ وہ جنگیں جن میں امریکہ شامل نہیں تھا، ان میں بھی مرنے والوں کے خون کے چھینٹے امریکی آستینوں پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان جنگوں میں 1996ء تک ایک کروڑ نوے لاکھ تہتر ہزار انسان ہلاک ہوئے۔ اس کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں جتنے افراد جنگوں میں مرے ہیں اس کا 78 فیصد گزشتہ ساڑھے پانچ سو سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور اکیسویں صدی میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور خوفناک جنگیں ہوئیں۔پہلی جنگ عظیم 1914سے 1918تک چلی۔ان 4سالوں میں پورپ کے ساڑھے 4کروڑ افراد مارے گئے۔معذور اور زخمی ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔دوسری جنگ عظیم 1939سے 1945تک لڑی گئی ۔ان چھ سالوں پورپ، امریکہ اور جاپان کے سوا6کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ سب جنگیں امریکہ، یورپ اور مغرب نے اپنے مفادات کے لئے مسلط کیں۔ ’’مائیکل مین‘‘ (Michael Mann) کی کتاب ’’The Dark Side of Democracy‘‘ کے مطابق ’’امریکہ میں آنیوالے جمہوری انقلاب میں امریکیوں نے 50سال میں 10کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا ہے۔ آج امریکہ جس بنیاد پر کھڑا ہے اس میں 10کروڑ لوگوں کا خون ہے، جبکہ اسلامی تاریخ کے 15سو سال کے اندر 10لاکھ بھی قتل نہیں ہوئے۔ انقلابِ فرانس، انقلابِ روس اور انقلابِ چین میں بھی 8کروڑ سے زیادہ لوگ قتل کئے گئے۔ لاطینی امریکہ میں انقلاب لانے کے لئے 2کروڑ قتل کئے گئے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کا مطلب یہی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ایسی جنگ عظیم اس سے پہلے کبھی ہوئی ہی نہیں۔ دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر 11کروڑ سے زائد افراد قتل کئے گئے۔ امریکہ نے اپنے یومِ آزادی سے ہی تشدد کا راستہ اپنایا ہوا ہے۔ 1776ء سے اب تک امریکی مسلح افواج 227مرتبہ اقوام عالم کے خلاف جارحیت کی مرتکب ہوچکی ہیں۔ ان 239 سالوں میں دو سو بیس مرتبہ جارحیت کے ارتکاب کی یہ شرح کسی بھی ملک کی شرح جارحیت سے کئی گنا زیادہ اور بیشتر صورتوں میں کئی سو گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ پوچھی جائے تو وہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ چنگیز خان کی گردن پر 34ملین اور ہلاکو خان کی گردن پر صرف 4ملین افراد کا خون بتایا جاتا ہے۔ تیمورلنگ کی خون آشام تلوار 14ملین کا خون پی گئی جبکہ جرمن نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کو 21ملین کا جان لیوا بتایا جاتا ہے۔ یہ کل 73 ملین افراد ہوئے جبکہ امریکہ کے ذمہ اب تک 171.5 ملین افراد کا قتل بلاشک وشبہ ثابت ہے۔ جس کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں ریڈ انڈینز 100ملین، افریقن 60 ملین، ویت نامی 10ملین، عراقی1ملین، افغان نصف ملین ہے۔ کل فرد جرم 171.5ملین بنتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے اگر 73ملین مظلومین کے قاتلوں کو ’’انسانیت کا قاتل‘‘ کہا جاتا ہے تو 171ملین سے زیادہ کی رگ جان سے خون پینے والے امریکہ کو کیا نام دینا چاہئے؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ 24 ملکوںپر بمباری کا مرتکب ہوچکا ہے۔ ان تمام جنگوں کے پیچھے امریکہ تھا، ان تمام جنگوں میں امریکی اسلحہ استعمال ہوا۔ ان میں سے چند جنگیں تو ایسی تھیں کہ اگر امریکہ کی وزارتِ دفاع سے ایک ٹیلی فون آجاتا تو لاکھوں افراد خوفناک موت سے بچ جاتے لیکن فون تو رہا ایک طرف امریکی دفتر خارجہ نے عین جنگ کے موسم میں ایسے بیانات دینے شروع کردئیے جن کے نتیجے میں وہ جنگیں ناگزیر ہوگئیں۔ استعماری عزائم رکھنے والی اسلحہ ساز کمپنیوں نے دونوں ہی ملکوں اور فریقوں کوا علانیہ اور خفیہ طریقے سے جنگی اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا۔ اس وقت بھی دنیا میں 68ایسے تنازعات موجود ہیں جو دنیا کے 43 فیصد معاشی وسائل کھارہے ہیں۔ یہ لڑائی جھگڑے اور تنازعات ایسے ہیں جو بآسانی حل ہوسکتے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ اس کا حل چاہتا ہی نہیں۔ 1991ء میں روس کی شکست کے بعد امریکہ کے مرتب کردہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ میں کہا گیا اب پوری دنیا پر بلاشرکت غیرے امریکہ کی حکمرانی ہوگی۔ جہاں کہیں بھی امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے وہاں وہ کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے اصل میں امریکہ ’’عالمی تھانیداری‘‘ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن یاد رکھئے جو دعویٰ آج کا سپر پاور کرتا ہے کبھی قیصر وکسریٰ بھی یہی کہتے تھے مگرآج ان کا نام ونشان نہیں۔ 1945ء سے پہلے جرمنی بھی یہی دعویٰ کرتا تھا پوری دنیا پر حکمرانی کا حق صرف جرمنوں کو ہے۔ 1950ء کے بعد روس کا طوطی بولتا تھا۔ 1990ء کے بعد یہی کچھ امریکہ سوچ رہا ہے اور اس کے لئے وہ سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں کو قرار دیتا ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں دنیا کو اصل خطرہ امریکی سامراج سے ہے۔ دیکھیں! افغانستان پر 2001ء سے، عراق پر 2003ء سے اور شام پر 2012ء سے تاحال خونی یلغار پوری طاقت اور شدت سے جاری ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ امریکہ کی خون آشامی کا سلسلہ کسی بھی صورت رکنے میں نہیں آرہا، لیکن امریکہ یاد رکھے کہ اس کے غرور کو خاک میں ملانے والی ذات یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔

.
تازہ ترین