• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہائی گھنائونا قتل نہایت سفاکانہ اور وحشیانہ طریقے سے کیا گیا۔ علم کا گہوارہ کہلانے والی جگہ پر اس کا ارتکاب اسے اُس سے کہیں زیادہ شرمناک فعل بنادیتا ہے اگر ایسا واقعہ تہذیب کی قلمرو دور کسی وحشی خطے میں پیش آیاہوتا۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کوئی جنگلی یا وحشی نہیں تھے۔ اس ڈیجیٹل دورکے تعلیم یافتہ شہری نوجوانوں کے ہاتھوں ہونے والا یہ قتل ذہن کو مائوف کردیتا ہے کہ ایسی وحشیانہ حرکت اگر کسی دہشت گردگروہ یا کسی جرائم پیشہ گینگ نے کی ہوتی تو بھی ایک بات تھی۔
جب ہم نے داعش کے جنگجوئوں کو اردن کے ایک پائلٹ کو زندہ جلانے یا سفاک قاتلوں کے ہاتھوں اپنے سیکورٹی اہل کاروں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ویڈیوز دیکھیں تو ہم نے خود سے سوال کیاکہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والی ذہنیت کیسی ہوگی۔ اب ہم نے مہذب خاندانوں کے خودساختہ منصفوں اور جلادوں کو مشال خان کو کمرے سے گھسیٹ کر دوسری منزل سے نیچے گرانے، اُس پر بیہمانہ تشدد کرنے اور ہلاک کرنے کے مناظر دیکھے تو انسانی فطرت کی سفاکیت اور اس کے پر تشدد رجحان نے ہماری زبان بند کردی۔
ہم نے فی الحال اس کی مذمت کی (کچھ حلقوںنے اس قتل کی حمایت بھی کی ہے )، تحقیقات کا وعدہ کیا، اور درحقیقت دلیری کا ایسا نادر مظاہرہ کیا جس سے تاحال چشم ِفلک محروم تھی۔ ہم نے چیلنج کیا ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری طرف ہم نے مشال خان کی تدفین کردی ہے، اور اس کے پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں زندہ بچ جانے والے دوست پر یونیورسٹی انتظامیہ کی نظریں ہیں کہ شاید اصل توہین کا ارتکاب اُسی نے کیا ہے۔ مزیدیہ کہ ہم نے اس موضوع پر ان گنت ٹویٹ کی ہیں۔
یہ ہے اُس خبر پر ہمارا رد ِعمل جو اگر گزشتہ عشرے کی بھی ہوتی تو بھی انسانوںکا کلیجہ شق کردیتی۔ ذرا سو چیں کہ مشال خان کے ذہن میں اُس وقت کیا ہوگا جب وہ اُن لڑکوں، جن کے ساتھ اُس نے شاید کبھی بیٹھ کر چائے بھی پی ہوگی، کے نرغے میں تھا۔ یہ تصور کرتے ہوئے ہم اس سانحہ کی حقیقی گہرائی کااندازہ لگاسکتے ہیں۔ یا اُس کے والدین کے ذہنی کرب کا تصور کریں کہ جب اُسے کبھی بخار ہوتا ہوگا تو اُن کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہوں گی، لیکن پھر وہ دن بھی آیا جب اُس کی تشدد زدہ لاش اُس یونیورسٹی سے آئی جہاں اُنھوںنے اُسے روشن مستقبل کی تلاش میں بھیجا تھا۔ جب ہم مشال خان کے قتل کے اس پہلو کو دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے ہم اس اجتماعی قتل کے حقیقی مضمرات سے کس قدر لاعلم ہیں۔ اس قتل کی وجوہ تلاش کرنے کی ہماری کوششیں بھی اتنی ہی کمزور ہیں۔ ہم اس کی وضاحت اپنی گرتی ہوئی اخلاقی اقدار ِ، نوجوانوں کی بے مقصدیت، اور اُس فسادی کلچر، جس کے بیج ضیا دور میں بوئے گئے لیکن بعدمیں بھی اُنہیں پروان چڑھنے کی اجازت دی گئی، کے پس ِ منظر میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تمام وضاحتیں اپنی جگہ پر درست، لیکن مشال خان اور اس کے اہل ِ خانہ کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ اب وہ اس دنیا سے جاچکا ہے، اور اس کے خاندان کی زندگی ہمیشہ کے لیے گھائل ہوگئی ہے۔ اگر اُسے تھیوری کے اعتبار سے ’’محفوظ ‘‘ کیا جاسکتا، جیسے فورینسک انکوائری کو محفوظ کیا جاتا ہے، تو ہم دکھاوا کرسکتے تھے کہ ہم ایک سمجھ دار قو م ہیں۔ لیکن کیا اُسے بچایا جاسکتا تھا۔ اس کا جواب نفی میںہے، اور اس کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ دراصل ہم کچھ سال پہلے بوئی ہوئی فصل ہی کاٹ رہے ہیں۔ یاد کریں کہ یہ صوبہ کس طرح ہمارے حالیہ آمرنے ایک تجربہ گاہ بنادیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف اب ایک عمدہ زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن مشال خان کے قاتل جنرل مشرف کے نام نہادلبرل دور میں ہی پیدا ہوئے اور پروان چڑھے جب اُنھوںنے اس صوبے پر مذہبی حکومت مسلط کی تھی۔ اُنھوںنے زمام ِ اختیار اُنہی ہاتھوں میں تھما دی جن کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اُنہیں ’’بش بنک آف یوایس اے ‘‘ کی طرف سے فنڈز ملتے تھے۔
ذرا یاد کریں کہ اُس وقت این ڈبلیو ایف پی میں عوام پر مذہبی روایات کو اس حد تک مسلط کردیا گیا کہ اشتہارات میں عورت کا چہرہ دکھانا بھی گناہ اور جرم سمجھا جاتا۔ کھلے عام موسیقی پر پابندی لگادی گئی، ثقافتی سرگرمیوں کا ’’صفایا ‘‘ کردیا گیا، موسیقار اور فنکاربے روزگار ہوگئے، سینما ئوں پر تالے لگ گئے جبکہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسی من پسند نیکی اور پرہیزگاری کا پہلو متعارف کرایا جس کے سامنے کوئی بھی اختلاف ِرائے شیطانی حرکت تصورہوتی تھی۔ تاثر ہے کہ صوبے پر ایم ایم اے (جسے ستم ظریف مشرف مینو فیکچرڈ ایڈمنسٹریشن بھی کہتے تھے) کے راج نے ایسے رویوں کا رواج ڈالا جو اختلاف رائے کو مطلق برداشت نہیںکرتے تھے اور جن کے سامنے متبادل موقف کا اظہار ناممکن تھا۔ اس وقت جو نسل یونیورسٹی میں ہے، اُ س وقت اسکولوں میں تھی۔ اگر آپ اس مخصوص ماحول میں پروان چڑھے ہوں تو مذہب کے نام پر ہلاک کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اگر اس میں مبالغہ آرائی کا شائبہ دکھائی دیتا ہو تو ذرا اعدادوشمار پر غور کریں۔ 1946 سے لے کر 1980ء کی دہائی کے وسط (ضیا دور) تک مذہب کے نام پر تشدد کرکے ماورائے عدالت ہلاکتوں کے صرف دوواقعات پیش آئے تھے۔ جی ہاں، صرف دو۔ ضیا دور سے لے کر 2014 ء ایسے واقعات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھتے ہوئے 57تک پہنچ گئی۔ کچھ اور پریشان کن اعدادوشمار پر غور کریں۔ 1927 ء سے لے کر ضیا دور تک توہین کے صرف سات الزامات سامنے آئے، لیکن 1980ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 2014ء تک ان کی تعداد 1,335 تک جا پہنچی۔ نفرت اور عدم برداشت کے خارزار آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں لیکن پھر اُن کا پھیلائو بڑھتا جاتا ہے۔
چنانچہ مشال خان مشرف دور کی موقع پرستی کی سیاست، جس نے امریکہ سے ڈالروں میں ڈیل کی، کا شکار ہوا۔ تاہم اس قتل کی یہی واحد وضاحت نہیں ہے۔ موجودہ دور کی ایک لعنت، جو اس جنونیت کا ایک مسنگ حصہ ہے، مشال خان کی افسوس ناک ہلاکت کا باعث بنا۔ گزشتہ چندایک برسوںسے آزادی اظہار کے بہائو کو زہر آلود کر دیا گیا ہے۔ ہر طرف سے تبصروں اور فیصلوں کا سیلاب امڈا چلا آتا ہے۔ ان کے ذریعے زیادہ تر دوسروں کی ہتک کی جاتی ہے اور انہیں انسانوں کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ بننے والے کسی ہمدردی کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان تبصروں میں خاردار حب الوطنی تو پہلے ہی موجود تھی، اب ان میں دوسروں کے عقیدے کی پرکھ کا نشتر بھی شامل ہے۔ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ کیا فلاں شخص سچا مسلمان ہے یا نہیں۔ بے لگام سوشل میڈیا اس آتشیں رجحان پر قطرہ قطرہ تیل گرارہا ہے۔ ٹی وی پر مذہب کی کمرشل ادامیں ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ہر کوئی دلیل کا سرخیل کہ صرف وہی مذہبی احکامات کی درست سمجھ رکھتا ہے۔
عام طور پر اس میں ایک تشریح کو بہترین قرار دینے کا مطلب دوسری کو اس کے برعکس ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اختلافات کو فرقہ واریت، اور تجزیوں کو فتوے کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ دوسروںکو کافر، جاہل، بے دین، مرتد اور اسلام کے دشمن کہنے کا رواج عام ہے۔ برائے نام علم، محدود معلومات، محرومی، ذاتی ناکامی، تنک مزاجی اور زبان درازی نفرت کے ان سوداگروں کے اثاثے ہیں۔ وہ ان کی زہرناک آمیزش سے دل ودماغ کو آلودہ اور روحوں کو تاریک کرتے ہیں۔اگر اس میں کوئی کسر باقی تھی، کچھ ریاستی عناصر ان دھڑوں کی اس طرح سرپرستی کرتے ہیں کہ وہ ہر رات ٹی وی پروگراموں میں دوسروں کے خلاف نفرت اور دھمکیوں کو ارزاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ عوام کو اشتعال دلاتے ہوئے کھلے عام کچھ گروہوں اور افراد کو دائرہ اسلام سے خارج، چنانچہ واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ تمام نظام جانتا ہے کہ اُن کا مقصد کیا ہے، جج حضرات بھی جانتے ہیں، پیمرا بھی جانتا ہے، وزیراعظم صاحب اور آرمی چیف بھی لاعلم نہیں، لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے ہاتھ میں بلیک وارنٹس ہیں۔ وہ میڈیا پر کسی کو بھی سزائے موت سناسکتے ہیں۔ ریاست اُن سے محبت کرتی ہے، اور وہ خود سے محبت کرتے ہیں۔
یہ پرہیزگاری انسانیت کے نام پر دھبہ ہے، لیکن افسوس، انہیں جامعات، کالجوں، گلیوں، بازاروں اور گھر وں میں اپنے پیروکاربہت آسانی سے مل جاتے ہیں۔ وہ ایسے جواز پر تشدد اور قتل کی ترغیب دیتے ہیں جس کا اسلام کی اصل روح سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ افسوس، ریاست کے کچھ عناصر ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، ا ور پھر ایک دن وہ کسی بھی طالب علم کو اُس کے کمرے سے گھسیٹ کر نکالتے ہیں، تشدد کرکے ہلاک کردیتے ہیں، اور ریاست کو ’’بے پناہ صدمہ‘‘ہوتا ہے۔ مشال خان کو بچایا نہیں جاسکتا تھا۔ اگر ایک سو گارڈ ہوتے تو بھی اُسے نہیں بچا سکتے تھے۔ وہ ایک ایسے دور میں پید اہوا تھا جہاں جھوٹ اوربہتان کی ایک قومی دکان کھلی ہوئی ہے۔



.
تازہ ترین