• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ افغانستان سمیت کہیں بھی پراکسی میں نہ پڑے اس کے برعکس ڈپلومیسی یعنی سفارت کاری کی راہ اپنائے۔ طالبان کے تمام دھڑوں کے خلاف کارروائی کرے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے‘‘۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا یہ مفت مشورہ بظاہر بڑا مسحور کن ہے عقل و شعور ہی کے نہیں، عدل و انصاف اور امن و سلامتی کے تمام رائج الوقت ضوابط پر پورا اترتا ہے لیکن پاکستان کے نقطہ نظر سے اگر اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ جواب بھی بنتا ہے کہ ایکسیلینسی! یہی مبنی برحقائق و انصاف راستہ آپ پاکستان کے ہر دو ہمسایوں کو بھی کیوں نہیں دکھاتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے معماروں کو اس نوع کی شکایت بلکہ شکایات افغانستان سے بھی ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے مخالف کئی مسلح جہادی گروہوں کو افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کیوں بے لگام چھوڑ رکھا ہے؟ مولوی فضل اللہ کی شہرت تو ڈیورنڈ لائن کے آر پار سنی جاتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان دنوں پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان کے تانے بانے انہی گروہوں سے ملتے ہیں جن میں جماعتہ لاحرار نامی دہشت گرد تنظیم تو باضابطہ طور پر فخریہ ان سانحات کی ذمہ داری قبول کرتی چلی آرہی ہے۔
فی زمانہ متحارب ممالک میں ڈپلومیسی سے زیادہ پراکسی وار ہی کا چلن ہے خود امریکا نے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی پراکسیاں بنا رکھی ہیں افغانستان کے اندر 27دسمبر1979کی سوویت مداخلت کے بعد امریکہ نے اپنی جتنی پراکسیاں مضبوط کیں اگرچہ بیشتر ہمارے ذریعے کیں انہی کا خمیازہ آج تک نہ صرف ہم بلکہ خود امریکی بھی بھگت رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں پراکسی ازم نے ایک طوفان بپا کر رکھا ہے شام میں جو انسانی بربادی ہو رہی ہے وہ سب کیا ہے؟ جہاں جہاں ڈپلومیسی کی بجائے پراکسی وار ہو گی وہاں امن کی توقع ایک خواب ہی رہے گی۔
پاکستان کو جہاں اپنے ہمسایوں سے شکایات ہیں وہیں ہمارے ہمسایوں کو بھی ان حوالوں سے ان گنت تحفظات ہیں۔ اگرچہ ہمارے یہاں اس نوع کے اعلانات کیے جاتے رہتے ہیں کہ No good or bad Taliban لیکن کئی مواقع پر احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ باتیں محض لپ سروس تک محدود ہیں ہم نیشنل ایکشن پلان بناتے ہیں یا ضربِ عضب کا اختتام یا آپریشن ردالفساد کا آغاز بلاشبہ امن و سلامتی کے حوالے سے ان کے اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
افغانستان میں حکومتی ہی نہیں عوامی سطح پر بھی یہ سوچ راسخ ہے کہ پاکستان ان قوتوں سے مبینہ ہمدردی رکھتا ہے جو افغانستان میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتیں کئی افغان دوست تو یہاں تک الزام عائد کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم طالبان کے روپ میں اپنے لوگوں کو ادھر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ یہ شبہات محض ہمارے افغان بھائیوں تک محدود نہیں ہیں ہمارے مشرقی ہمسائے کو بھی ہیں وہ کشمیر میں بدامنی کی بنیادی وجہ ہی اس پراکسی پالیسی کو خیال کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے بڑے بڑے اسکالرز اور حربی ماہرین نے ان حوالوں سے بہت کچھ لکھا ہے وہ تو خیر ماضی کی باتیں تھیں اب ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ مصیبت یہ ہے کہ قومی تعصب ایک ایسی بیماری ہے جو حقائق یا سچائی کا ہمیشہ سے خون کرتی یا کچلتی چلی آرہی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی سرد گرم یا پراکسی سے بھرپور جنگیں ہوئی ہوں اختتام ان کا ڈپلومیسی پر ہی ہوتا ہے اس وقت خدا نے امریکیوں کو اقوامِ عالم میں جو مقام بخشا ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ دنیا بھر کے تمام علاقائی تنازعات کو حل کروانے کے لیے سفارت کاری کو بطور ہتھیار استعمال کریں۔ حال ہی میں انہوں نے مسلہ کشمیر کے لیے ثالثی کی جو بات کی ہے وزیر اعظم نواز شریف نے کھلے بندوں اسے سراہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی انتظامیہ بھارت سرکار سے قریبی تعلق یا اثر رسوخ کو اس نیک مقصد کے لیے استعمال کرے۔
سفارت کاری سے بلاشبہ کسی بھی فریق کو اس کی مرضی کا آئیڈیل حل نہیں مل سکتا سفارت کاری چل ہی تب سکتی ہے جب ہر کوئی یہ سوچ کر میز پر آئے کہ وہ اپنے کس کس مطالبے کی قربانی دے سکتا ہے جذبہ قربانی کے بغیر سفارت کاری کارِ لاحاصل ہے ۔ ہر قوم کا اپنا ایک موقف ہوتا ہے جسے وہ سو فیصد برحق خیال کرتی ہے لیکن اگر بالمقابل قوم کی سنو تو ان کے دکھ بھی بے بنیاد نہیں ہوتے سفارت کاری یہ ہے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ افغان حکومت جماعتہ الاحرار کا خاتمہ کرے تو آپ بھی حقانی گروپ کا خاتمہ بالفعل کریں۔ ضیاء کے بعد پرویز مشرف سے زیادہ جنگجویانہ سوچ شاید ہی کسی کی رہی ہو جو کارگل بربادی کے معمار کہلائے حالات کے تھپیڑے کھا کر بالآخر اس طرف آئے کہ سفارت کاری کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ خورشید قصوری گواہ ہیں کہ ان کے دور میں مسئلہ کشمیر سفارت کاری کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچ رہا تھا مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا تو پالیسیاں بھی بدل گئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے لائیں ہمارے ہمسایوں کو بھی اسی طرح سوچنا ہو گا کیونکہ تالی محض ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔

.
تازہ ترین