• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں سندھی طالبہ نورین لغاری اور اسکے ساتھیوں کی، شدت پسندوں کی کمین گاہ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے مڈبھیڑ کے دوران 35منٹ تک مقابلے کے بعد گرفتاری اور ایک شدت پسند کی ہلاکت جو کہ اس کا مبینہ شوہر بتایا جاتا ہے، نہ فقط اس شک کو یقین میں بدلتا ہے کہ سندھ اور اس کا سماج اب اپنے خمیر میں صوفیانہ نہیں رہا بلکہ یہ بھی کہ شاہ سچل سامی کا سندھ اب شدت پسند تنظیموں کا گڑھ بن بھی چکا۔ ان شدت پسند گروہوں اور تنظیموں میں ملکی راہ عدم اور کالعدم تنظیموں کے علاوہ داعش یا دولت اسلامیہ جیسی غیر ملکی تنظیموں کی بھی کمین گاہوں یا نیٹ ورک کے کھرے ملتے ہیں کہ نورین لغاری جیسی لڑکی اور اس کے مبینہ شوہر دہشت گرد کا تعلق بھی اسی تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔
نورین لغاری تو آج کی بات ہوئی لیکن سندھ میں شدت پسند تنظیموں اور سندھ کے صوفیانہ رنگ میں شدت پسندی برسوں کا قصہ ہے۔ شاید دو ہزار سات میں بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کراچی میں کارساز پر خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی سندھی تھا بلکہ نیویارک اور واشنگٹن میں گيارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملے پر بنائی جانیوالی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں جسے ’’گیارہ ستمبر یا نائن الیون کمیشن رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے، میں بھی ایک شخص عبد الرحمان السندھی کا نام سرکردہ کے طور پر آیا ہے۔ کتنی شرم اور دکھ کی بات ہے کہ سندھ کا وہ تصور ٹوٹ چکا کہ جس بنا پر سندھ صوفیا کی سرزمین کہی جاتی تھی۔ کبھی بایزید بسطامیؒ جیسے جید ترین برگزیدہ صوفی کے استاد بھی ایک سندھی صوفی تھے۔
نورین لغاری جو آج کے دن سے ڈھائی ماہ قبل گھر سے پر اسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھی وہ اس وقت گرفتار ہوکر ظاہر ہوئی جب وہ اپنے مبینہ شوہر کے ساتھ گزشتہ اتوار ایسٹر والے دن لاہور کے چرچ پر خودکش حملے کا حصہ بننے والی تھی کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے نے اسے ناکام بنا دیا۔ تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ فرض کرو کہ مسیحی برادری کے اس بڑے دن ایسٹر پر اگر دہشت گرد تنظیم داعش کا چرچ پر خود کش حملے کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو کتنی تباہی پھیلتی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور نیت کی کمی پر کئی سوالات اٹھائے جانا اپنی جگہ لیکن اس کارروائی میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔
نورین لغاری حیدر آباد سندھ کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جس کا والد ڈاکٹر عبدالجبار سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پروفیسر اور خود نورین لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں سال دوئم کی طالبہ ہے۔ ان دونوں کی تصدیق ان شناختی کارڈوں سے ہوئی جو لاہور میں وقوع والی جگہ سے ملے۔ سارا سندھ سکتے میں ہے۔ تردد کی کیفیت میں ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، سندھ کی بیٹی کا تعلق دہشت گرد تنظیم یا مذہبی انتہا پسندی سے نہیں ہو سکتا۔ یہ کوئی اور لوگ ہیں۔ یہ بات کرنا ایسا ہی ہے کہ نہیں سندھی لوگ کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل نہیں کر سکتے یہ رسم باہر سے آئی ہے۔ شدت پسندی ضرور باہر سے آئی ہوگی لیکن اب سندھیوں کے اس شعبے میں بھی انگلیوں تک گننے والی تعداد نہیں کافی تعداد ہے۔ ایسا ہوا ہے، ہو رہا ہے۔
قلندر شہباز کی درگاہ پر بم کا دھماکہ اور نورین لغاری کا تعلق داعش سے بتاتا ہے کہ سندھو کا پانی سر سے گزر چکا۔ کب بہت پہلے۔ اہالیان سندھ تمہارے بچے خراب ہو رہے ہیں۔
محققین اور مورخین اس پر بحث کرتے رہیں کہ سندھ میں شدت پسندی کب داخل ہوئی؟ کوئی اسے سولہویں سترہویں صدی کا قصہ بناکر ٹھٹھہ کے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی اور ابوالحسن کی تصنیفات سے جوڑتا ہے۔ کوئی اسے صوفی شاہ عنایت جھوک والے کی شہادت سے کہ جو مغل بادشاہ فرخ سیر کے زمانے میں شہید ہوئے کہ جن پر بھی فتویٰ مقامی مذہبی پیشوائوں نے مقامی جاگیرداروں یا زمینداروں سے ملی بھگت کر کے لگوایا۔ کوئی اسے صوفی مخدوم بلاول کے واقعہ سے پندرہویں صدی سے جوڑتا ہے جب توہین قرآن کے جھوٹے الزام میں اس برگزیدہ ترین مخدوم بلاول صوفی کو کولہو میں پیلوایا گیا جب ایک سازش کے ذریعے ایک موچی کے ہاتھوں سازش تیار کروائی گئی کہ ان برگزیدہ ترین صوفی نے اپنی جوتی میں کتاب مقدس کے اوراق سلوائے ہیں۔
لیکن انیس سو اٹھانوے کسے یاد ہے کہ جب سندھ کے ٹھٹھہ کے قریب نیل جھیل کینجھر کے کنارے آباد چھوٹے لیکن پرسکون خوبصورت شہر میں عید قربان کے روز پارا چنار کے صوفی عارب شاہ اور ان کے نوجوان بھانجے کو بالکل ایسے انبوہ نے قتل کیا تھا جیسے گزشتہ دنوں مردان میں مشال خان کے ساتھ ہوا۔
منصور ہو یا سرمد ہو صنم یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر ہر ایک کا سر قربان ہوا
سچل سرمست نے کہا تھا۔
صوفی عارب شاہ اور ان کا بھانجا اور خاندان پارا چنار میں آئے دن فرقہ واریت کی بھڑک اٹھنے والی آگ سے آزردہ صوفی سندھ آکر آباد ہوئے اور اپنا آستانہ قائم کیا تو یہاں سندھ کی بڑھتی ہوئی شدت پسندی نے دبوچ لیا۔ عید کی نماز پڑھنے والے انبوہ نے عید سے فارغ ہوتے ہی صوفی عارب شاہ کے آستانے پر ہلہ بول دیا اور صوفی سمیت ان کے بھانجے کے سر سرکوب کر دیئے۔ تب سے ہی سندھ میں شدت پسندی کی ایک بڑی لہر آ چکی۔ جب سجاول کے مدرسے سے لے کر بلڑی شاہ کریم (شاہ لطیف بھٹائی کے دادا جن کا مزار اس جگہ قائم ہے) تک سے نوجوان مدرسے کے طالب افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ جا کر لڑنے کو بھیجے گئے۔ اس سے قبل کئی نوجوان مدرسوں و غیر مدارس کے خاص طور پر لاڑکانہ، سجاول، ٹھٹھہ، حیدر آباد، شکار پور، جیکب آباد کے افغانستان نام نہاد جہاد لڑنے گئے ہوئے تھے۔
دو ہزار دس اور گیارہ میں دریائے سندھ میں سیلاب اور سیلاب سے قبل اور بعد میں ایک بڑا ریلا شدت پسندوں کا آیا جنہوں نے دریائے سندھ اور نیشنل اور انڈس ہائی ویز کے دونوں کناروں کے بڑے چھوٹے شہروں چاہے تھر پارکر کے صحرا پر کالعدم تنظیموں کی طرف سے غیر رجسٹرڈ مدارس کے قائم کئے جانے سے لے کر سرائیکی اور شمالی سندھ کی پٹی والے علاقوں میں بھی بغیر روک ٹوک کے آ کر کمین گاہیں قائم کیں۔ کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ ہو کہ قلندر شہباز کی درگاہ پر حملہ صاف پتا دیتا ہے کہ سندھ میں صوفی فیبرک تباہ ہوکر شدت پسندی نے جگہ لی۔ کئی احباب اس کی ایک بڑی وجہ غربت بتاتے ہیں لیکن نورین لغاری یا عمر شیخ جیسے نوجوان یا آئی بی اے کے طلبہ کونسے بھوکے ننگے خاندانوں سے تھے؟ سندھ کے تعلیمی اداروں میں جو ٹیکسٹ بک پڑھائے جاتے ہیں اس نے بھی نوجوان کے ذہنوں پر کیا اثر ڈالے اس پر نئی تحقیق کیا کہتی ہے پھر کبھی سہی۔
سخی سرور ڈیرہ غازی خان، شکار پور، جیکب آباد میں جلوسوں پر حملے، چاہے افغانستان جانے والے امریکی رسد کے ٹرکوں پر حملے اور تازہ قلندر شہباز کی درگاہ پر خود کش حملہ بتاتے ہیں سندھ اب کب کا صوفی نہیں رہا۔ اور اب نورین لغاری اور سندھ میں داعش۔ جن کا ٹارگٹ مدرسے نہیں یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں۔

.
تازہ ترین