• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیمز برِٹ ڈنووَن (James Britt Donovan) نامی ایک امریکی وکیل سال 2015میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم ’برج آف اسپائیز‘ کا مرکزی کردار ہے۔ شہرہ آفاق فلمساز اسٹی ون اسپیل برگ (Steven Spielberg)کی یہ فلم سرد جنگ کے دوران سوویت جاسوس رڈولف ایبل(Rudolf Abel) کی زندگی سے جڑے چند حقائق پر مبنی ہے۔ اس میں یہ وکیل ایک امریکی عدالت میں اِس روسی جاسوس کا بھر پور دفاع کرتے دکھا یا گیا ہے۔
حقائق کے مطابق 1957میں گرفتار ہونے والے رڈولف ایبل کا جاسوسی نیٹ ورک امریکی ریاست کیلیفورنیا سے لے کر ارجنٹائن تک پھیلا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ اِس نے کوئی نو سال کے عرصے میں اپنی ہنر مندی، مکاری اور خاموش فطرت کے ذریعے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن مذکورہ وکیل کا عدالت سے اصرار تھا کہ اسے سزائے موت کے بجائے طویل مدتی قید میں رکھا جائے۔ وکیل کا خیال تھا کہ رڈولف ایبل اگر قید میں رہا تو مستقبل میں دشمن ملک میں قید کسی اہم امریکی شخصیت کو اس کے بدلے مانگا جا سکتا ہے! کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی اگر اُس روسی جاسوس جیسا ہوتا تو شاید اُس امریکی وکیل کا موقف آج اِس کے کام آ جاتا۔ لیکن اس بھارتی جاسوس کا مقدمہ بظاہر کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
کلبھوشن کیخلاف سزائے موت کے اعلان سے لیکر اب تک، پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک نیوز میڈیا پر جاسوسوں، ان پر لاگو ہونے والے قوانین اور ان کے عبرتناک انجام پر تبصروں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے لیکن گزشتہ دنوں لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) محمد حبیب ظاہر کا نیپال سے اغوا اِن حالات میں مزید پیچیدگیوں کا سبب بن گیا ہے۔ بظاہر نیپال میں کرنل حبیب کی گمشدگی کسی نہ کسی سطح پر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے تعلق رکھتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کلبھوشن یادیو کو کسی نے دھوکہ دے کر گرفتار نہیں کیا تھا۔ وہ پاکستانی علاقے سے گرفتار ہوا، اُس کے خلاف باقاعدہ مقدمہ قائم کیا گیا اور پھر دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر اِس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔ امورِ خارجہ پر وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے مطابق یہ فیصلہ پاکستانی قوانین کے مطابق کیا گیا ہے۔
سزا کے اعلان کے بعد ایک بھارتی نیوز اینکر دعویٰ کر رہے تھے کہ کلبھوشن یادیو کو ایران میں گھس کر گرفتار کیا گیا۔ اِن کا خیال تھا کہ پاکستانی سیکورٹی ادارے جب چاہیں ایران میں گھس کر کارروائی کر سکتے ہیں۔ خواہش کے باوجود میں اُس بھارتی اینکر سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ شاید افغانستان اور ایران میں صحیح فرق نہیں کر پا رہے ہیں! بھارت کے سفارتی حلقوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان کی جانب سے قونصلر رسائی کی اجازت نہ ملنا جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ درحقیقت جنیوا کنونشن کا آرٹیکل پانچ جاسوسی اور سبوتاژ کے ملزم کے خلاف دائر مقدمے میں تسلسل، شفافیت اور انصاف کی یقینی فراہمی سے متعلق ہے۔ کنونشن میں کسی جگہ قونصلر رسائی کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری جانب قونصلر رسائی پر 2008میں طے پانے والا پاک بھارت معاہدہ بھی جاسوسی سے متعلق معاملات میں غیر موثر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دِنوں بھارتی ہائی کمیشن کو مقدمے کی چارج شیٹ کی نقل فراہم کئے جانے کے بعد مقدمے کی شفافیت پر اُٹھایا گیا سوال بھی بے معنی ہو گیا ہے۔ مزید یہ کہ کلبھوشن یادیو کے پاس اب بھی اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کے دو مواقع موجود ہیں۔
تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ اس پورے معاملے پر ایک ڈوزئیر تیار کیا گیا ہے۔ حکمرانوں سمیت ملک کے تقریباً تمام بااثر سیاست دان اِس ڈوزئیر کے اقوام متحدہ میں پیش کئے جانے کے حق میں ہیں۔ لہٰذا شفافیت اور انصاف کے معاملات میں اگر اَب بھی کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو اقوام متحدہ کے متعلقہ فورم میں ڈوزئیر کے غیر جانبدارانہ جائزے کا انتظار کر لیا جائے۔
دوسری جانب لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ محمد حبیب ظاہر کی گمشدگی ایک انتہائی مختلف اور زیادہ سنگین معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ اِنہیں بھارتی سرزمین سے گرفتار کیا گیا نہ ہی وہ نیپال میں جاسوسی یا سبوتاژ کے مشن پر معمور تھے۔ بظاہر انہیں ایک جال بچھا کر کٹھمنڈو سے اغوا کیا گیا ہے تاکہ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر پاکستانی حکام کو بات چیت پر راضی کیا جا سکے۔
کلبھوشن یادیو کے خلاف سزا کے اعلان پر بھارت کا ردعمل اگرچہ فطری ہے لیکن اس میں قانونی اور سفارتی دم خم کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ایک بھارتی نیوز چینل پر کہا گیا کہ کلبھوشن ایرانی شہر چابہار میں ذاتی کاروبار کر رہا تھا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بھارتی نیول آفیسر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لیتے ہی اپنے ملک میں موجود کولکتہ، چنائے، بنگلور، دلی اور ممبئی جیسے بڑے کاروباری شہروں کو چھوڑ کر ایران کے اس چھوٹے سے شہر کا انتخاب کیوں کرتا ہے؟ لگتا تویہ ہے کہ پاکستان کی سرحد سے چند قدم کے فاصلے پر واقع اس کم آباد ریگستانی شہر میں کاروبار کے سوا سب کچھ کیا جاسکتا ہے!
اِن سطروں کو لکھتے ہوئے میرا خیال خودبخود کرنل حبیب کی جلد اور محفوظ وطن واپسی کی طرف چلا جاتا ہے۔ لہٰذا میں ابتدا میں بیان کی گئی ہالی وڈ فلم ’برج آف اسپائیز‘ میں اُس روسی جاسوس کی کہانی یہاں مکمل کر دیتا ہوں۔ ہوا یوں کہ رڈولف ایبل کی امریکہ میں گرفتاری کے کوئی تین سال بعد، امریکی ائیر فورس کا سابق کپتان فرانسز گیری پاروز (Francis Gary Powers)ایک جدید جاسوسی طیارے کو اڑاتا ہوا سوویت یونین کی فضائی حدود میں داخل ہوتا ہے لیکن کچھ ہی دیر بعد یہ طیارہ ایک جدید سوویت میزائل کے ذریعے مار گرایا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر زندہ بچ جانے والا پائلٹ جیل بھیج دیا جاتا ہے! کچھ عرصہ اور گزرا تو دنیا کی اِن دو طاقتوں کے درمیان کشیدگی کچھ کم ہو گئی۔ اس دوران امریکہ میں قید روسی جاسوس رڈولف ایبل اور روسیوں کے قبضے میں موجود امریکی پائلٹ فرانسز گیری پاورز کو زندہ رہنے دیا گیا اور پھر وہ ہوا جو سرد جنگ کے اُس دور میں لگ بھگ ناممکن تھا!
دس فروری 1962کو سوویت یونین نے اپنے وفادار جاسوس اور امریکہ نے اپنے ماہر پائلٹ کو تبادلے کے ذریعے واپس حاصل کر لیا۔ سو یوں سنگین جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود اِن دونوں افراد کا زندہ رہنا دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں کام آگیا۔ جاسوسوں کا یہ تاریخ ساز تبادلہ اُس وقت تقسیم شدہ جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان واقع گلناکا (Glienicke)نامی ایک پُل پر عمل میں آیا۔ برِج آف اِسپائیز‘ در اصل اِسی تاریخی پُل کو کہتے ہیں !

.
تازہ ترین