• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی اچانک رونما ہونے والی کوئی انہونی زندگی کی آنکھ میں منجمد ہو جاتی ہے تو اس مخصوص منظر میں بکھری اذیتوں کی کرچیاں چنتی سوچ احساس کو لامتناہی کرب سے دوچار کر دیتی ہے۔ انسان لاکھ کوشش کرے، ادھر ادھر کی چیزوں پر توجہ مرکوز کرے مگر نگاہ میں ٹھہری بے بسی کی تصویر ہر شے میں منعکس ہو کر ماحول کو اداسی سے بھر دیتی ہے۔ دنیا کے کروڑوں انسانوں کی طرح کئی دن سے ایک درد میری آنکھ کی پتلی میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ سوچ کی پرواز دیوانگی کی دیواروں سے سر ٹکرا کر زخم زخم ہوئی جاتی ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جو حالات کے جبر کا شکار نہ ہو۔ تاریخ رقم کرنے والے مؤرخ کا قلم بھی لہو لہو ہے۔ شرمندگی کی سیاہی ورق ورق پھیلی ہوئی ہے۔ وہ کیا لکھے اور کیا نہ لکھے؟ فیصلے سے قاصر ہے۔ اگر سچ لکھتا ہے تو خود کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا پاتا ہے۔ اگر سچ نہیں لکھتا تو ذات کے آئینے کے ٹوٹ پھوٹ جانے کا خدشہ شب و روز کا چین چھین لیتا ہے۔
مشال خان کی درد ناک موت کا منظر کسی وقت آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ کئی دن سے سکتے کے عالم میں ہوں۔ ظاہری طور پر مطمئن نظر آنے کی کوشش میں مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی کرنے کے جتن کرتی ہوں تو باطن کا درد آنکھوں میں ماتم کرنے لگتا ہے۔ کھوکھلی ہنسی سے ماحول اور خود کو سب اچھا کا پیغام دینے کی کاوش کرتی ہوں تو روح کے بین سماعتوں پر پتھروں کی طرح برسنے لگتے ہیں۔ آئینے میں جھانکتی شبیہ طعنے دیتی محسوس ہوتی ہے۔ میری ذات مجھ سے سوال کرتی ہے، وہ سوال جن کا جواب میرے پاس موجود ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ حیرانی، پریشانی اور پشیمانی مل کر احساسِ گناہ میں ڈھل چکے ہیں کیوں کہ اجتماعی ظلم کے اس عمل میں معاشرے کے ہر فرد کی طرح میں بھی شریکِ کار ہوں۔ معاشرے میں برپا ظلم اور ناانصافی میں کہیں نہ کہیں میری بھی کوئی خاموشی اور مصلحت شامل ہے جس کی وجہ سے لاقانونیت اور درندگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم سب اپنی اپنی چار دیواری تک حفاظتی قلعے بنا کر محصور ہو چکے ہیں اور ہمارے گھروں سے باہر دنیا جنگل بنتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچئے دنیا کے سب سے معتبر مذہب کے پیروکار ہونے کے دعویٰ داروں کا کردار پچھلے کچھ سالوں سے دہشت ناک اور غیر انسانی ہو گیا ہے؟ ان کے رویے میں اخلاقی قدریں دم توڑ چکی ہیں۔ ان کے دل احساسات سے عاری ہو چکے ہیں۔ وہ چیخوں، سسکیوں اور آہوں کے رسیا اور خون کے پیاسے ہو چکے ہیں اور اہلِ دانش خاموش، اہلِ اختیار لاپروا۔
میں نے اس رات تین بجے تک مشال خان کا فیس بک ریکارڈ کھنگالا۔ ہر پوسٹ میری اذیت بڑھاتی رہی۔ زندگی سے بھرا، دوستوں میں گھرا، خوشیوں کے رنگوں میں رنگا ہوا خوبرو نوجوان جس کی آنکھیں بہت دور تک دیکھنے کی قدرت رکھتی تھیں۔ موج مستی کی عمر میں اس پر زندگی کی سچائیاں نازل ہو چکی تھیں۔ اس کے انٹرویو سنے، اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں جھانکا، کہیں کوئی ہیرا پھیری نظر نہ آئی۔ ہر لفظ میں اس کے جذبوں کی سچائی رچی بسی ہوئی محسوس کی۔ اپنی زمین، اپنے کلچر سے جڑت رکھنے والا، عورتوں کی صلاحیتوں کا معترف اور انسانیت کا علمبردار مشال خان کہاں قصور وار تھا؟ اپنے ربّ کی خدائی کے دعویٰ دار اور اس کے پیارے حبیب ﷺ سے محبت کا اظہار کرنے والے پر ایسا الزام لگانا بذاتِ خود ایک بہت بڑی اذیت ہے۔ کوئی مسلمان یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے مخالف اس پر ایسا الزام لگائیں جو اس کی روح کو کرچی کرچی کر دے۔
مشال خان کا قصور یہ تھا کہ وہ سوچتا تھا اور سوال اٹھاتا تھا، وہ استحصال اور بے انصافی کو قبول نہیں کرتا تھا، وہ ظلم کے آگے سرنگوں ہونے کو تیار نہیں تھا، حالات کے جبر سے سمجھوتہ کر کے خاموش رہنا اس کا وطیرہ نہیں تھا۔ وہ اردگرد بکھرے مسائل کو تماشائی کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھنے کا روادار نہیں تھا۔ وہ رُک گیا اور بے انصافی کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حساب مانگنے لگا۔ جواب دینے والوں نے ذرا کوتاہی نہ کی۔ ایک لمحہ سوچنا گوارا نہ کیا، کوئی درمیان کا رستہ، کوئی صلح صفائی کی کوشش اور نہ ہی اپنا محاسبہ کرنے کی روش اپنائی۔ اس کی بولتی آنکھوں اور گرج دار لہجے کو ایسے درد ناک انداز میں خاموش کیا کہ وقت کی چیخیں نکل گئیں۔ زمین و آسمان کا دل پسیج گیا مگر ان کے رویے میں لچک نہ آئی۔ ایک ایسے دماغ کو خاموش کرا دیا، ایک ایسے دل کا گلا گھونٹ دیا اور ایک ایسی سوچ کو پھانسی دے دی جو کل معاشرے میں سیاسی اور سماجی حوالے سے روشن ستارے کے طور پر ابھرنے والا تھا۔ وہ انسان کے وقار کا علمبردار تھا اس لئے اسے بے وقار کیا گیا۔ اسے بے دردی سے پیٹا گیا، گھسیٹا گیا، گیند کی طرح زمین پر پٹخا کیا گیا، ننگا کر کے بے عزت کیا گیا۔ یہ سارا خونیں منظر دوسروں کو دکھانے کے لئے تھا کہ سوچنا، سوال کرنا اور اختلافِ رائے رکھنا گناہ تصور کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جس نبیؐ کی ناموس کے ہم دعویدار ہیں ان کے نام پر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں کیاہم ان کی سیرت پر ایک فیصد بھی عمل کر پائے ہیں۔ وہ انسانیت کے پیامبر اور کُل عالم کے لئے رحمت ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اپنی ذات کے حوالے سے کسی کو بددعا تک دینے سے گریز کیا بلکہ مخالفت کرنے والوں کے حق میں بہتری کی دعا کی۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے والی غیر مسلم خاتون جب بیمار ہوئی تو اس کا رویہ یاد رکھنے کی بجائے انسانی قدروں کو اہمیت دی اور اس کی بیمار پرسی کی۔ آخر محبت، جمالیات اور اِنسانیت کے علمبردار نبی ﷺ کے اُمتی غلط فہمی کی بناپر کسی بے گناہ کو بغیر ثبوت کے کیسے قتل کر سکتے ہیں؟ اگر ہم رحمت اللعالمین کے بارے میں سوال اٹھانے والوں کو اُن کی ذات کی خوبیوں سے آگاہ کرنا شروع کر دیں اور اپنے عمل کو ان کی سیرت کے تابع کر لیں تو ایک عالم ان کی محبت میں گرفتار ہو جائے کیوں کہ جو کوئی ان کی سیرت اور ذات کے بارے میں جانے گا وہ انہیں پوری کائنات میں پہلے نمبر پر رکھنے پر مجبور ہو گا۔ مشال خان کے واقعہ نے پوری دنیا میں ایک گروہ کی بربریت عیاں نہیں کی بلکہ بحیثیت قوم ہماری شناخت پر بہت سارے سوالیہ نشانات ثبت کر دیئے ہیں۔ ہم نے اپنے رویوں سے اپنے مذہب کو نقصان پہنچایا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور شر انگیزی میں ریاست برابر کی شریک ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مقولے پر عمل پیرا ہیں نے بھی نوجوانوں کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھلا ہو میڈیا کا جنہوں نے انسانی جان کے دفاع میں دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ وہ ظالم کی بجائے مظلوم کی حمایت میں آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ مشال خان ہمیں واپس نہیں مل سکتا لیکن ہم نے بہت سارے بچوں کی جانیں محفوظ کرنی ہیں۔ ہم سب قصور وار ہیں اگر ہم نے قصور میں حاملہ خاتون کو آگ کی بھٹی میں ڈالنے والوں، سیالکوٹ میں بے گناہ بھائیوں کو جلانے والوں اور اس طرح کے دیگر واقعات میں ملوث مجرموں کو سزائیں دی ہوتیں تو آج کوئی قانون ہاتھ میں نہ لیتا، ظلم اس حد تک نہ بڑھتا۔ ظلم ظلم ہے اس کی کوئی بھی شکل ہو کسی ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دے کر ایک مثال قائم کرے تا کہ آئندہ کوئی مذہب کا سہارا لے کر انسانیت کا قتل نہ کر سکے۔

.
تازہ ترین