• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موبائل فون، فیس بک ، ٹویٹر یعنی یہ سوشل میڈیاجسکے جتنے فوائد ہیں اتنے ہی نقصانات بھی ہیں لیکن والدین اپنے بچوں کےلیے اپنے تئیں قواعد و ضوابط بنا کر اپنے بچوں کی نگرانی کرکے نقصانات کو کم کرسکتے ہیں اور میں پہلے بھی کئی بار اس موضوع پر لکھ چکا ہوں کیونکہ سائنس کی ترقی نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن انسان اس کے غلط استعمال سے اس کو خطرناک بنا دیتا ہے ، جیسے گزشتہ روز میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری جسے لا ہو رسے با زیاب کرا یا گیا، کے بیان نے ایک ہلچل مچادی ہے ، نور ین لغاری نے اپنے بیان میں یہ انکشاف کیاہے کہ ایسٹر کے موقع پر اس نے بارودی جیکٹ پہن کر خود کش حملہ کرنا تھا ۔نور ین لغاری جہاں خود میڈیکل کالج کی طالبہ ہے وہاں اس کے والد بھی یونیورسٹی میں کیمسٹری کےپروفیسر ہیں لیکن انہوںنے اپنی بیٹی کی سرگرمیوں اور خاص طورپر موبائل فون اور سوشل میڈیا پر رابطوں اور تعلقات پر نظر نہیں رکھی جس کی وجہ سے اس فیملی کو یہ دن دیکھنا پڑا کہ ان کی بیٹی ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جو اس سے محبت تو کیا کرتےاسے دہشت گردی کا ایندھن بنانے جارہےتھے ، یہ تو اس معصوم لڑکی یا خاندان کی کوئی نیکی کام آ گئی کہ دہشت گردی کے واقعہ سے قبل ہی سیکیورٹی اداروں نے کارروائی کر کے نہ صرف اس طالبہ کو بازیاب کرالیا بلکہ ایسٹر کے موقع پر ایک خطرناک منصوبے کو بھی ناکام بناتے ہوئے بے گناہوں کی جان کو محفوظ بنا یا۔
دراصل بچوں کی ایسی گمراہی کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، آپ اسپتالوں میں چلے جائیں، تفریح گاہوں کے بنچو ں یا سبزہ زاروں میں بیٹھے خاندان کو دیکھ لیں ، بسوں ، ویگنوں ، ٹرینوں اور ایئرپورٹس پر بیٹھے والدین کے ساتھ ٹریول کرنے والے بچوں کو دیکھ لیں ، راہداریوں ، فٹپاتھ اور ادھر ادھر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ لیں جن میں زیادہ تعداد نوجوان نسل کی ہوتی ہے وہ موبائل فون اٹھائے اس میں غرق آتے جاتے نظر آتے ہیں ، مارکیٹوں ، ریسٹورانوں یا ہوٹلوں میںدیکھ لیں آپ کو یہی صورتحال نظر آئے گی، لیکن میں نوجوان نسل کے ساتھ بیٹھے ان والدین کو یہ کہتے یا پوچھتے کبھی نہیں سنا کہ بیٹا تم کس کے ساتھ چیٹ کررہے ہو، یا تمہارے دوستوں کی فہرست میں کون کون ہے یا تمہیں کیسے میسیجز آتے ہیں اور تمہارے ساتھ کس قسم کی ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں اور ان میں سے وہ کون سی ویڈیو ہیں جنہیں تم فارورڈ کرکے خو شی محسوس کرتے ہو کہ تم نے اچھا کام کیا ؟ تو آپ کو بچوں کی ساری سرگرمیوں کا علم ہوجائے گا، لیکن اس کے برعکس اگر آپ خود بھی سوشل میڈیا کے اس’’ جادو‘‘ میں غرق شدہ ہیں تو پھر ہماری نئی نسل کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ، اس جادو میں غرق نئی نسل کےلیے محض ایک یہی خطرہ نہیں ہے کہ وہ کسی تشدد پسند تنظیم کے ہتھے چڑ جائے اور ایسی کارروائیوں میں ملوث ہوجائے جس کے تمام راستے تباہی کی طرف جاتے ہوں بلکہ ایک مسلمان کےلیے اس سوشل میڈیا کے ذریعےیہ خطرہ بھی موجود ہے کہ دین کے حوالےسے اس کو بالکل بے دین کردیا جائے یا دین میں رہتے ہوئے اس لڑ کے یا لڑ کی کی ڈائریکشن کو تبدیل کردیا جائے، نئی نسل کے جذباتی نوجوان کے ذہن میں ایک ایسا تشدد بھردیاجائے کہ وہ خود فیصلہ کرنےلگے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے اور اپنی ہی عدالتیں لگا کر سزا دینے کے عمل میں ملوث ہوجائیں ۔پہلے نیٹ کے ذریعے والدین صرف ایک خطرہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے بچے پورنوگرافی جیسے وائرس کا شکار نہ ہوجائیں ، لیکن اب خطرات اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ بے حیائی اور بے راہ روی برائی نہیںہے یہ بھی ایک خطرناک مرض ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عوامل جس میں آپ کی سوچ کو قید کرکے آپ کو معاشرے کےلیے ایک خطرہ بنادیا جائے ، آپ کے اندر ایک پرتشدد انسان کی پرورش کرکے اسے نفرت بنادیا جائے۔
تعلیمی ادارے جہاں انسانیت کا درس حاصل ہو مقالے لکھے اور پڑھے جاتے ہوں ، اچھے اچھے موضوعات پر بحث و مباحثے کرائے جاتے ہوں، مشاعروں کے ذریعے لطیف جذبوں کی آبیاری کی جاتی ہو، کھیلوں کے ذریعے لیڈر شپ صلاحتیوں کو بڑھایا جاتا ہو، تفریحی اور مطالعاتی دوروں کے ذریعے طالب علمی کی یادوں کو حسین بنایا جاتا ہو وہاں اگر سیاست، مذہب اور علاقائی و لسانی بنیادوں پر گروپس بنا کر اسلحے تان لیےجاتے ہوں اور یوتھ سوشل میڈیا کے ذریعے ترقی اور علم کے حصول کی بجائے پر تشدد کارروائیوں پر اتر آئیں تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر اور خصو صاًــوا لدین پر ہے جس سے عہدہ برا ہو نے کی ضرو رت ہے۔

.
تازہ ترین