• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طویل توقعات لگا کر مایوس ہونیوالوں سے ہمدردی کی جا سکتی ہے

حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا اصل مقصد کیا ہو سکتا ہو گا جو ایک پاکستانی اور مسلمان خاتون ہونے کا دعویٰ کرنے والی دہشت گرد کے اس بیان کو نمایاں طور پر شائع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ عیسائیوں کی عید ایسٹر کے دن اُن کی عبادت گاہ پر خودکش حملہ کرنے کا پروگرام بنائے ہوئے تھی۔ حیرت کے ساتھ یہ احتمال بھی ابھرتا ہے کہ اس دعوے کے جواب میں مسلمانوں کی عیدین پر مساجد کو لہولہان کرنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔ مذکورہ خاتون سے منسوب کی جانے والی بعض باتوں کو غلط اور بےبنیاد قرار دینے والے اوپر بیان کئے گئے خوفناک اعلان کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟مردان میں ایک پڑھے لکھے نوجوان کو قتل کرنے اور پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کرنے کے حادثہ کو بھلایا نہیں جا رہا کہ ایسے حادثے بھلائے نہیں جا سکتے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک سائنس دان استاد پرویز ہود بھائی نے انصاف، عقل اور اصولوں پر مبنی باتیں کیں اور سیاسی سرگرمیوں میں منفی کردار ادا کرنے میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنے والے فرید پراچہ جیسے لوگوں نے مردان کے حادثے کے پیچھے پرویز ہود بھائی جیسے لوگوں کی ’’لبرل انتہا پسندی‘‘ کی موجودگی کو ذمہ دار قرار دیا۔ صحافت، سیاست اور کسی بھی موضوع پر پہلی بار ’’لبرل انتہا پسندی‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے حالانکہ لبرل انتہا پسندی جیسی کوئی شے موجود نہیں ہو سکتی اور اگر موجود ہو سکتی ہے تو پھر امن کی دہشت گردی، انصاف کی بے انصافی اور جنگ کی امن پسندی بھی ناممکن نہیں ہو گی۔ جہالت اور ناسمجھی کی کوئی انتہا بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ دہشت گردی اگر جہالت اور ناسمجھی کی انتہا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟بتایا جاتا ہے کہ انسانی عقل و شعور کے مناسب اور موزوں استعمال کے ساتھ انسانی زندگی کے مختلف معاملات کو بروئے کار لانے اور مسائل حل کرنے کے لئے طریق انداز اور ذریعے سوچے گئے جن کو نظریہ یا نظریات کا نام بھی دیا گیا۔ یہ نظریات قوم کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کے ساتھ کسی بھی محفل کی پہلی نشستوں پر براجمان ہوا کرتے تھے مگر نظریات میں مفادات کی مداخلت سے نظریات پہلی نشستوں سے اٹھا کر پچھلی نشستوں پر بھیج دیئے گئے اور اگلی نشستوں پر کرپشن، بددیانتی، رشوت اور سفارش جیسی لعنتوں نے قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ سیاست اپنا اصل کام بھول گئی اور اس کے اندر بھی رشوت، سفارش اور بددیانتی آ گئی اور تعلیم اور دانش کے علاقوں میں مردان جیسے حادثات ہونے لگے۔آج پاکستان میں قومی زندگی کے ایک اہم مسئلے کے بارے میں عدالتی فیصلہ منظر عام پر لایا جا رہا ہے اور اس فیصلے کے بارے میں بہت سی توقعات بھی پائی جاتی ہیں اور ان گنت اندیشوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور نئے انتخابات کے ذریعے ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت برسر اقتدار آ جائے گی مگر بے شمار توقعات اور خواہشات کے باوجود ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایسا نہیں ہو گا۔ سیاست اور انصاف کے پراسیس کے اندر ہر کام کسی دلیل اور طریقے سے ہوتا ہے۔ کوئی کام اچانک، فوراً اور بغیر کسی تحمل کے نہیں ہو سکتا۔ بغیر کسی تحمل کے ہونا بھی نہیں چاہئے چنانچہ وہ جن کو اس فیصلے کے اعلان سے مایوس ہونا ہے انہیں مایوسی کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور کسی اگلی امید کی جانب دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لبرل انتہا پسندی کی طرح قانونی جواز سے محروم انصاف بھی تو نہیں ہو سکتا۔

.
تازہ ترین