• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظام عدل اور جدید تقاضے ... خصوصی تحریر…محمد رمضان سیٹھی

انسان ازل سے عدل کی تلاش میں ہے اور شاید یہ تلاش ابد تک جاری رہے گی۔ متعدد نظام ہائے عدل لائے گئے اور تقریباً اتنے ہی سردست اِس کرئہ ارض پر نافذ ہیں لیکن ہر انسان عدل کا متلاشی نظر آتا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں اپنی بسا ط اور وسائل کے مطابق بہت زیادہ اور بہتر کام سرانجام دے رہی ہیں لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں اگر ہم جدید تقاضوں سے اپنے نظام کو ہم آہنگ کر لیں تو نہ صرف عدل میں سرعت پیدا ہوگی بلکہ معاشرے میں موجود بگاڑ کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بنیادی طور پر ماتحت عدالتیں جب شہادتیں ریکارڈ کرتی ہیں تو اس میں بہت سے پہلو ضبط تحریر میں یا تو آنہیں پاتے یا پھر وہ مغالطے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ تو ایسا ہونا چاہئے کہ یہ شہادتیں Electronically ریکارڈ کی جائیں تاکہ غلطی کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ گزشتہ کالم میں راقم نے استغاثہ اور تفتیشی اہلکاروں کے مابین رابطے کے فقدان کا ذکر کیا اور اسی بات پر چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی اصرار ہے کہ استغاثہ اور تفتیشی عملے کے مابین نہ صرف بہتر روابط ہوں بلکہ تفتیشی افسر کا تعین مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے کیا جائے۔ جب تک تفتیشی عملہ اور استغاثہ کے مابین بہترین ربط نہیں ہوجاتا اور دونوں محکمے ایک دوسرے سے باہم روابط برقرار نہیں رکھتے اور ایک دوسرے کی معاونت نہیں کرتے تب تک کریمنل جسٹس سسٹم صحیح نتائج نہیں دے سکتا۔ اسی طرح تفتیشی افسران کا تعین مقدمات کے تکنیکی نکات اور پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے اور مقدمات بغرض تفتیش صرف قابل ،مقدمے کے نکات کو اچھی طرح سمجھنے والے ،متعلقہ قوانین پر عبور رکھنے والے اور دورِ حاضر کی ایجادات کو صحیح انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیتوں کے حامل افراد کو دئیے جائیں اور تفتیشی افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ دورانِ تفتیش قدم بہ قدم استغاثہ سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ جس طرح اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی تقسیم کی گئی ہے اور وہ عدلیہ کے روسٹر میں نظر آتی ہے بالکل اسی طرح تفتیشی افسر کی تعیناتی بھی انہی اقسام کے مطابق ہونی چاہئے۔ یہ امر بھی مسلم ہے کہ اب وائٹ کالر جرائم انتہائی منظم طریقے اور صفائی کے ساتھ سرانجام دئیے جا رہے ہیں اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے جرائم کرنے والے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں۔یوں تو مقدمات کی اور بھی اقسام ہیں لیکن وائٹ کالر جرائم کے ساتھ اگر ہم مالیاتی اداروں سے متعلق جرائم کو شامل کریں تو ہمارے نظام میں ایسے افسران موجود نہیں ہیں جو اس قسم کے جدید جرائم کی تفتیش کرسکیں۔ اگر ایسے افراد ہمارے پاس ہوتے تو بے شمار مقدمات عدالت عظمیٰ میں نہ ہوتے بلکہ اخلاقی جرائم ، قتل، اغوا، امن و امان ، دہشت گردی، بھتہ خوری جیسے جرائم کے چالان کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو یہ ہمیں ایک ہی فارمیٹ میں نظر آتے ہیں جو معمولی سے ردو بدل کے ساتھ کاپی اور پیسٹ کئے جاتے ہیں جس کے باعث نہ تو عدالتیں کسی نتیجے پر پہنچ پاتی ہیں اور نہ ہی مجرموں کو سزا ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ملزمان شک کا فائدہ لیتے ہوئے یا تو بری ہوجاتے ہیں یا وہ طویل عرصے تک ضمانت پر رہ کر مقدمے کی قوت ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ باہمی تنازعات، عائلی مسائل اور گلی محلوں کے جھگڑے بھی عدالتوں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں تیسری سطح کی حکومت یعنی بلدیاتی حکومتوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ یونین کمیٹی کی سطح پر ایسی مصالحتی انجمنیں تشکیل دیں جو ان معاملات کو علاقائی سطح پر عمائدین اور معززین شہر کی مدد سے حل کرسکیں، جبکہ یہ مقدمات اور معاملات بھی عدالتوں میں لائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سول مقدمات بھی عام عدالتوں میں ہی زیر سماعت لائے جاتے ہیں جو بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ہم اختصار کے ساتھ اس گفتگو کو سمیٹنے کی کوشش کریں تو یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ عدالتوں اور نظام میں بدرجہ اتم یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ عام عوام کو فوری انصاف فراہم کرسکے لیکن مسئلہ نظام میں موجود قواعد پر عمل درآمد کا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی مقدمے میں جوابی دعویٰ داخل کرنے کے لئے 30دن کی مدت موجود ہے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ادارے اور ان کے پاس اختیارات بھی ہیں لیکن جواب آنے میں بہت وقت ضائع ہوجاتاہے۔ اگر ہم اس نظام میں بہتری لائیں اور قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام متعارف کروا دیا جائے تو مقدمات کے نمٹنے میں تیزی آسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح معاشرتی و اخلاقی جرائم کی بیخ کنی کے لئے پولیس اصلاحات لانا اور ان کو نافذ کرنا لازم ہوچکا ہے لہٰذا مقننہ، حکومت اور ادارے اس باب میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اسی طرح نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سمیت جتنے بھی تحقیقاتی ادارے ہیں وہ جرائم کی بیخ کنی کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں بھی عہد جدید کے جرائم سے لڑنے کے لئے ہمیں تربیت یافتہ تفتیشی عملہ لانا ہوگا جو سائنسی بنیادوں پر مقدمات کی تحقیقات کرے اور جلد از جلد معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ عدالت ہائے عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فاضل جسٹس صاحبان اکثر اپنی آبزرویشن کسی تقریب سے خطاب کے دوران ان نکات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں بہتری لانے کی خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن انتظامی خرابیاں اور معاملات کو طول دینے جیسے مسائل ان کے آڑے آجاتے ہیں۔ ان معاملات کے سدباب اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی کے لئے ایک واضح اور جدید خطوط پر استوار نظام متعارف کروانا وقت کی ضرورت بنتا جارہا ہے۔

.
تازہ ترین