• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس:وزیر اعظم نا اہل نہیں ہوئے...مزید تحقیقات کا حکم

سپریم کورٹ کے جس فیصلے کا پوری قوم کو شدت سے انتظار تھا جمعرات کی سہ پہر وہ بالآخر منظر عام پر آگیا۔پاناما لیکس کا معاملہ تقریباً سواسال پہلے شروع ہوا تھا ، وزیر اعظم کے اہل خانہ سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کے نام اس میں شامل تھے تاہم اہم ترین حکومتی منصب پر فائز ہونے کے سبب وزیر اعظم کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی پاک دامنی کا قابل اعتبار ثبوت قوم کے سامنے پیش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مطالبہ پوری قوم کی آواز بن گیا کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم یا ان کے اہل خانہ کے شامل ہونے کی معتبر تحقیقات کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بالآخریہ معاملہ تمام سیاسی اور عوامی حلقوں کے اتفاق رائے کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پہنچا۔ مدعیوں کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے۔ فروری کے اواخر میں سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ اور تقریباً دو ماہ بعد پانچ سو چالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنادیا۔فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ پانچ میں سے دو ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے اس سے اختلاف کیا ہے جن کا اختلافی نوٹ اس میں شامل ہے۔فیصلے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے بیرون ملک اثاثوں اور کاروبار کے لیے جس رقم کی قطر منتقلی کا ذکر کیا ہے، وہ وہاں کیسے منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب اس تحقیقات کے لیے رضامند نہیں پائے گئے اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ اس لیے عدالت ایف آئی اے، ایم آئی اور آئی ایس آئی پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیتی ہے جس پر سات دن کے اندر عمل ہوجانا چاہئے۔ وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادگان حسن نواز اور حسین نواز سول اور فوجی تحقیقاتی اداروں پر مشتمل اس ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے پابند ہوں گے۔ ہر دوہفتے بعد یہ ٹیم سپریم کورٹ کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرے گی اور ساٹھ دن کی مدت میں اپنی تحقیقات کو حتمی شکل دے کر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی۔ جس کے بعد یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کی ایک اسپیشل بنچ کے روبرو جائے گا اور اس کے بعد حتمی فیصلہ سامنے آئے گا۔واضح رہے کہ اختلاف کرنے والے ججوں نے وزیر اعظم کو منصب کے لیے نااہل قرار دینے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ فیصلے کے ان بنیادی نکات سے واضح ہے کہ یہ کسی کی فتح ہے نہ شکست بلکہ عملاً یہ مقدمہ ابھی جاری ہے۔اس کیس کے درخواست گزاروں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کی متفقہ استدعا تھی کہ میاں نواز شریف کو منصب کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ جبکہ عمران خان نے عدالت سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور کیپٹن صفدر کو نااہل قرار دینے اور وزیر اعظم کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کی پاکستان منتقلی کی درخواست بھی کی تھی۔لیکن فیصلے سے واضح ہے کہ ابھی تحقیقات کا عمل ہی مکمل نہیں ہوا۔ فیصلے کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر چیئرمین نیب اس کام کو ذمہ داری سے انجام دے چکے ہوتے تو عدالت بھی کسی حتمی نتیجے تک پہنچ گئی ہوتی۔ تاہم ایسا نہ ہونے کی وجہ سے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پہلو سے عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے کیونکہ کسی بھی ملزم کو محض شک کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے جرم کا پوری طرح ثابت ہونا ضروری ہے جبکہ دوران سماعت عدالت دونوں فریقوں کو مسلسل متنبہ کرتی رہی کہ پورا سچ کوئی بھی سامنے نہیں لارہا ہے۔ اس بنا پر مزید تحقیقات کرانے کا فیصلہ بالکل درست نظر آتا ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل میںسول ہی نہیں فوجی اداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی بناء پر غیرجانبدارانہ اور معتبر تحقیقات کا امکان قوی ہے۔ فیصلے میں نہ حکومت لیے جشن منانے کی گنجائش ہے نہ فریق ثانی کے لیے اورسارا انحصار اب مزید تحقیقات پر ہے۔ تاہم یہ فیصلہ اس اعتبار سے یقیناً تاریخ ساز ہے کہ پاکستان میں بھی ملک کے سب سے بااختیار منصب پر فائز شخصیت کو ملک کے تحقیقاتی اداروں کے سامنے پیش ہونا پڑے گا جس سے عدل وا نصاف کی بالادستی کی نئی اور شاندار روایت قائم ہوگی۔

.
تازہ ترین