• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الفاظ بظاہر بے جان ہوتے ہیں لیکن دراصل الفاظ نہایت جاندار ہوتے ہیں اور سخت جان بھی۔ جاندار الفاظ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور بعض اوقات تاریخ بنا جاتے ہیں جبکہ بے جان الفاظ ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ جاندار اور سخت جان الفاظ وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم حرمت والے الفاظ کہتے ہیں، جن کے انصاف، تقدس اور روشنی کو زمانہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں الفاظ کی حرمت قائم کرنے میں نہ صرف بہت دیر لگتی ہے، دہائیاں بیت جاتی ہیں بلکہ اس کے لئے طویل جدوجہد اور ایثار بھی کرنا پڑتا ہے۔ الفاظ وہ بھی تھے جو قائد اعظم کے منہ سے نکلتے اور نہ سمجھنے والے بھی انہیں سچ اور حق سمجھتے اور الفاظ وہ بھی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کے ہونٹوں سے بلند آہنگ ہو کر ٹپک رہے ہیں اور سننے والے یا نہ سننے والے دونوں انہیں جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اس لئے تو عرض کرتا ہوں کہ الفاظ کی حرمت قائم کرنے کے لئے جدو جہد بھی کرنی پڑتی ہے اور اس میں طویل وقت بھی لگتا ہے۔ تاریخ کے فیصلے ہوں یا عدالتوں کے فیصلے، سارے فیصلے الفاظ پر ہی مشتمل ہوتے ہیں لیکن کچھ فیصلے اپنے الفاظ کی حرمت قائم کرجاتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے فیصلے ڈرامہ بازی یا طنز و مزاح کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بہرحال ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ فی الحال الفاظ کی حرمت سے محروم ہے، یہاں الفاظ کا تقدس کمزور ہے اور اس حرمت اورتقدس کو قائم کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرنی پڑے گی اور انتظار بھی۔ الفاظ کا زیاں اور بے تاثیر ہونا ایک ہی بات ہے اور سچ یہ ہے کہ کالم نگاری نے بھی الفاظ کے زیاں میں کچھ کردار سرانجام دیا ہے۔
جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے، یوم پاناما ہے اور پاناما کا فیصلہ آنے میں دو گھنٹے باقی ہیں۔ ساری قوم عدالت پر نظریں جمائے بے چینی سے وقت گزرنے کا انتظار کررہی ہے اور میڈیا نے ملک میں جذباتی، شدید جذباتی فضا پیدا کررکھی ہے ورنہ تو یہاں اس سے قبل بڑے بڑے عدالتی فیصلے آئے اور قوم کو پامال کرتے ہوئے گزر گئے۔ نہ کوئی جذباتی فضا تھی اور نہ ہی اس قدر ہنگامہ ۔الیکٹرانک میڈیا اسپتال کے وارڈ میں چوہے کے نمودار ہونے اور برلب سڑک بلی کی موت کو بریکنگ نیوز بنانے کا عادی ہے اس لئے یوم پاناما منانے کے لئے چینلوں میں مقابلہ جاری ہے۔ تجزیات کے سمندر بہائے جارہے ہیں اور الفاظ کا زیاں جاری ہے---الفاظ کی حرمت ہنوز دو راست۔
میرے ایک محترم پروفیسر صاحب دیرینہ دوست ہیں اور سیاست پہ گہری نظر رکھتے ہیں حالانکہ پروفیسری اور سیاستدانی کا آپس میں تعلق نہایت نحیف اور سطحی ہے۔ رات میں نے پوچھا حضرت پاناما بارے کیا اندازہ ہے؟ جواب ملا پاناما ڈرامے بازی ہے۔ مزید کریدا تو جواب ملافیصلہ نہایت غیر متوقع ہوگا۔ وہ مزاجا کم گو ہیں حالانکہ پروفیسر باتونی ہوتے ہیں، باتوں کی کمائی کھاتے ہیں لیکن وہ الفاظ کی حرمت سے آگاہ ہیں لہٰذا کم گو ہیں۔ میں ان کی بات سن کر سوچنے لگا کہ آواز خلق کو اگر نقارہ خدا مان لیا جائے تو پھر اس فیصلے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ جو ایک شور اور الفاظ کا غدر برپا ہے کہ پاناما کا فیصلہ ہماری تاریخ کا رخ بدل دے گا اور اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور آئندہ سے کسی کو کرپشن اور لوٹ مار کی جرأت نہیں ہوگی یہ سب الفاظ کا زیاں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ابھی الفاظ کی حرمت قائم کرنے میں وقت لگے گا اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔
آواز خلق کیا ہوتی ہے؟ لوگوں کی آواز، لوگوں کا احساس و ادراک آواز خلق کی بنیاد تاریخی تجربات و مشاہدات پر ہوتی ہے نہ کہ الفاظ کے ہوائی قلعوں پر ---- ہماری تاریخ کا پہلا عدالتی فیصلہ جس نے قوم کی گردن میں غلامی کا طوق پہنا دیا اور فیصلوں کے الفاظ کی حرمت کو ہوا میں اڑا دیا وہ تھا چیف جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت۔ اقتدار اعلیٰ کی مالک دستور ساز اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا لیکن جسٹس منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کی تابع فرمانی کرتے ہوئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا جو آج تک ہمارے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے کانوں سے عدالت عالیہ سے یہ خبر بھی سنی کہ نظریہ ضرورت دفن کردیا گیا ہے لیکن تاریخی شعور کہتا ہے کہ نظریہ ضرورت کسی نہ کسی شکل میں اب تک موجود ہے۔ عینی شاہد جنرل کے ایم عارف کے بقول چیف جسٹس کو سرکاری ڈنر سے کھانا کھائے بغیر جانا پڑا اور رات کو عدالت کھلوا کر نصرت بھٹو کیس میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئینی ترمیم کا اختیار دینا پڑا۔ بھٹو کو پھانسی چڑھانے کے لئے بھی عدالتی فیصلہ آیا اور بعد ازاں ’’جج‘‘ صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ عدالتی قتل تھا جس نے الفاظ کی حرمت کو پامال کردیا۔ نواز حکومت کو بحال کرنے والے بنچ میں شامل جج حضرات میں سے کوئی صدر بنا، کوئی صدر کا امیدوار بن کر آخری ’’دموں‘‘ میں گورنر ہائوس پہنچا، باقی سینیٹرز بنے یا اعلیٰ عہدے یعنی من پسند عہدے پائے لیکن کچھ بظاہر تہی دامن رہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہ بھی تہی دامن نہ رہے۔ دینے کے لئے عہدوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ گیلانی سوئٹزر لینڈ میں پڑے چھ کروڑ ڈالرز کی بھینٹ چڑ ھ گئے یعنی ہماری سیاست کا راز یہ ہے کہ عہدہ جائے تو جائے لیکن دولت نہ جائے۔ دن دیہاڑے اربوں لوٹ کر کھربوں کے اثاثے بنانے والے جس طرح سینے تان کر ایک دوسرے پر پتھر برساتے اور عوام کے سامنے ہیرو بنتے، پارسائی کا لبادہ اوڑھتے، غریب عوام کے مسائل پر آنسو بہاتے اور عوام کی خدمت کے نعرے لگاتےہیں، ڈھٹائی کا یہ عالم، جمہوریت کا یہ مکروہ چہرہ الفاظ کا یہ زیاں اور بے حرمتی صرف پاکستان کا مقدر ہے۔ یارو پاکستان میں الفاظ کا تقدس اور حرمت قائم کرنے میں دیر لگے گی۔ جدوجہد کرنی پڑے گی۔ فی الحال توقعات کی گٹھڑی کو مضبوطی سے باندھ کر رکھو اور الفاظ کا زیاں یا ضیاع دیکھتے جائو۔

.
تازہ ترین