• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر بیس اپریل کی دوپہر ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آ گیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پانچ سو چالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں ایک جے آئی ٹی بنے گی، اس جے آئی ٹی کی نگرانی سپریم کورٹ خود کرے گی۔ یہ جے آئی ٹی ساٹھ روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔ یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے سنایا گیا۔ بنچ کے سربراہ اور ایک اور جج نے وزیر اعظم کو نااہل کرنے کا نوٹ لکھا جبکہ تین ججوں نے کہا کہ تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بننی چاہئے البتہ سپریم کورٹ نے قطری خط کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں بننے والی جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اب یہ سب کچھ اس جے آئی ٹی پر منحصر ہے کہ وہ لوٹ مار کو کس حد تک بے نقاب کرتی ہے۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جے آئی ٹی بنانے کی چاہت میں فیصلہ سنانے کے لئے اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ لیکن چلو خدا خدا کر کے فیصلہ تو آیا۔ قوم ہیجانی کیفیت سے دوچار تھی، قوم کو ہیجانی حالت سے نکالنے پر سپریم کورٹ کا شکریہ۔ اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے فیصلے کو واقعی ’’تاریخی فیصلہ‘‘ کہنا چاہئے۔ قوم واقعی اس فیصلے کو بیس سال نہیں رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔
اس اہم ترین فیصلے سے پہلے کئی موڑ آئے۔ کبھی جلسوں میں پاناما کا تذکرہ ہوا تو کبھی پریس کانفرنسیں اس کے بغیر ادھوری رہیں۔ پاناما کے تذکرے ایوانوں میں بھی ہوئے، بیرون ملک بھی پاناما کیس سوال و جواب کا حصہ رہا۔ جب ایوان میں گونج سنائی دے رہی تھی تو اس وقت سیاسی جماعتوں کے مابین ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہو سکا۔ پیپلز پارٹی نے ساتھ نبھاتے ہوئے کوشش کی کہ یہ مقدمہ کسی طور بھی سپریم کورٹ نہ جائے مگر بالآخر عمران خان پاناما کیس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں لے گئے، انہیں شیخ رشید کا ساتھ بھی مل گیا، سراج الحق بھی سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ 126دن سپریم کورٹ کے اندر سماعت ہوتی رہی، باہر پریس کانفرنسیں، جب حکمران ٹولے کا جی نہیں بھرتا تھا تو وہ شام کو پی آئی ڈی میں ایک خاندان کے تحفظ کے لئے پریس کانفرنس رکھ لیتا تھا۔ شریف خاندان نے وکیل بھی بدلے، اپنے موقف بھی۔ ان کے ترجمانوں کی کئی ٹیمیں نظر آئیں۔ میں جب کبھی ان ٹیموں پر غور کرتا تھا تو مجھے انڈر 19، پی آئی اے اور پھر قومی کرکٹ ٹیم یاد آ جاتی تھی۔
فیصلہ سنائے جانے سے پہلے تک ججوں نے فیصلے کو بہت خفیہ رکھا۔ آخری رات بھی جب ’’جہادی بینرز‘‘ لگائے جا رہے تھے مختلف جگہوں پر یہی بحث جاری تھی کہ فیصلہ کیا ہو گا، ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا فیصلے کو اس قدر خفیہ رکھنے پر ججوں کو داد دینی چاہئے۔ اس مرتبہ تو عدالتوں کے کھوجی بھی ناکام رہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ شریف خاندان کو یہ پتا نہیں تھا کہ فیصلہ کیا آ رہا ہے۔ یہی صورت حال باقی اطراف تھی، فیصلے کے روز شیخ رشید صبح سویرے لال حویلی کے باہر ایکشن میں نظر آئے۔
اپریل نواز شریف کی زندگی میں بہت اہم رہا ہے۔ وہ 25اپریل 1981ء میں صوبائی وزیر کی حیثیت سے آمرانہ دور میں اقتدار میں داخل ہوئے۔ 18اپریل 1993ء کو بطور وزیر اعظم انہیں برطرف کیا گیا۔ اس وقت بھی ان پر کرپشن کے الزامات تھے۔ چار اپریل 2000ء کو انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ پاناما لیکس بھی اپریل میں سامنے آئیں، اس سلسلے میں اہم ترین فیصلہ بھی اپریل ہی میں سنایا گیا۔
اس فیصلے سے پہلے میں جب بھی غور کرتا تھا تو مجھے بڑی آسانی سے ایک جواب خود ہی سے مل جاتا تھا کہ 1985ء کے الیکشن کے نتیجے میں جو سیاسی پنیری ملک کے حوالے کی گئی وہ بہت کرپٹ ثابت ہوئی۔ 80ء کی دہائی میں کوچۂ سیاست میں داخل ہونے والوں نے دولت کے حصول میں ہر وہ طریقہ اختیار کیا، جسے اپناتے وقت سر شرم سے جھک جائے۔ انہوں نے دولت حاصل کرنے کے لئے دھونس دھاندلی سب کو جائز سمجھا۔ قیادت نے معاشرے کی رگوں میں کرپشن اتار دی۔ آج اگر پاکستانی معاشرہ کرپٹ ہے تو اس کا سارا کریڈٹ وطن عزیز کی برسر اقتدار رہنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو جاتا ہے۔ میں خاص طور پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے اس رویے پر ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ انہیں اپنے ملک کا کوئی خیال نہیں، انہیں عوام کا کوئی احساس نہیں، چوری اور کرپشن پکڑنے والے ادارے کہاں سو رہے ہیں۔ لوٹ مار کے اس کھیل میں مجھے حضرت علی ؓ کے کئی فرمودات یاد آتے تھے، خاص طور پر ایک قول تو میں اکثر جنگ کے قارئین کی نذر کیا کرتا تھا آج پھر وہی قول نقل کر رہا ہوں کہ حقائق بے نقاب کرنے کے لئے یہی قول صادق ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں’’ ....دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی کے پاس دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہوئی ہے....‘‘علم کے دروازے نے کتنی بڑی حقیقت کو کتنے آسان سے جملے میں بیان کر دیا ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس دولت کے ڈھیر ہیں، جو گڑبڑ کے بغیر ممکن نہ تھے، ایسے لوگ جو ملکی دولت کی لوٹ مار میں شریک رہے، میں جب ان کی دولت کی ہوس دیکھتا تھا تو اکثر سوچتا تھا کہ کیا ان لوگوں کو خدا یاد نہیں، لوٹنے والوں کے سامنے میرا آج بھی یہی موقف ہے کہ جب تم قبر میں جائو گے تو دولت تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ میں آج بھی شہر علم کے دروازے حضرت علیؓ کے اس فرمان کا قائل ہوں کہ ’’....جب تمہارے پاس رزق تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو تو فوراً سمجھ جانا کہ یہ کسی کا حق ہے جو تمہارے پاس اُس کی امانت ہے....‘‘ مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ 35برسوں سے پاکستان پر حکومت کرنے والوں کو یہ احساس نہ ہو سکا بلکہ انہوں نے احساس کا قتل عام کیا، انہوں نے ہر اُس برائی کا بیج بویا جس سے تباہی کی فصل تیار ہوتی تھی، اسی لئے تو آج ہم بربادیوں کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارے ملک کے اعلیٰ ترین اور منافع بخش ادارے انہی سیاستدانوں کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ بربادیوں کی داستان برسوں پر مشتمل ہے۔ اس داستان میں ایک بات بہت حیران کن ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنے والے لوگ اپنی عیاشیوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے قرضے لیتے رہے۔ مزید حیرت یہ کہ ان قرضوں میں بھی لوٹ کھسوٹ جاری رہی۔
20اپریل کو جو فیصلہ سامنے آیا ہے، خدا کرے اس فیصلے کی روشنی میں ملک کا مقدر سنور جائے، عوام کی تقدیر بدل جائے ورنہ احمد ندیم قاسمی نے تو عرصہ پہلے دعا دی تھی کہ ؎
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

.
تازہ ترین