• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردان کے المناک واقعہ کی وجوہات اب سامنے آنے لگی ہیں۔ یہ توہینِ رسالت کا معاملہ نہیں ہے۔ ایک سازش ہوئی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس سازش میں عبدالولی خان یو نی ورسٹی کی انتظامیہ مبینہ طور پر ملوث ہے۔ ایک ملزم، وجاہت، نے پولیس کے سامنے کچھ حقائق بیان کر دئیے ہیں، مزید باتیں تحقیقات میں واضح ہو جائیں گی۔ وجاہت نے ان ابتدائی شبہات کی تصدیق کردی ہے کہ اس جامعہ کے بعض لوگوں نے اُسے مشال خان کے خلاف توہین کا الزام لگانے پر اکسایا تھا، اور اُس نے یہ کام کردیا۔ مشال خان کے قتل کے بعد کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے وہ بھی بہت کچھ بتا رہی ہے۔ اس بات کا حلف لیا جا رہا ہے کہ گولی مارنے والے کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ قتل پر مبارکبادیں دی جارہی ہیں۔ یہ ہو ا کیا ہے؟
جو بھی ہوا ہے اس کے لئے پولیس یا عدالتی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہئے۔ کسی بھی معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے کچھ وقت تحقیقاتی اد اروں کو دیا جانا چاہئے تاکہ حقائق سامنے آجائیں۔یوں بھی اب یہ قتل کا ایک عام سا مقدمہ نہیں رہا کہ پولیس جو چاہے کرے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے اور عدالت سےیہ امید رکھنی چاہئے، اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ ملزموں کو عبرتناک سزا ملنی چاہئے، اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں، اور نہ ہو سکتی ہیں۔
مگر ہر طرف انتہاپسندی کی ایک رو ہے جس میں سب بہہ گئے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو مشال خان کو توہین کا مرتکب سمجھتے ہیں، اور اس کی نمازِجنازہ پڑھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ حقائق کا علم انہیں بھی نہیں ہے۔ انہوں نے سنی سنائی باتوں پر یہ افسوسناک فیصلہ کیا۔ اس کا کوئی جواز وہ پیش نہیں کر سکتے، اپنے اقدام کے حق میں کوئی دلیل بھی نہیں دے سکتے۔ کسی بھی الزام میں، ایک ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے شخص کو کوئی بھی مجرم قرار نہیں دے سکتا، اور کوئی مجرم نہیں ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھانے میں کیا قباحت تھی؟ اسے کسی عدالت نے توہین کا مرتکب قرار نہیں دیا تھا۔ کچھ لوگوںنے، جامعہ کی انتظامیہ کی شہ پر، اس پر یہ الزام لگایا اورخود ہی سزا دے دی۔ اس طرح مشال کو قتل کرنے والے خود ایک گھناؤ نے جرم کے مرتکب ہوئے، اور جن صاحب نے نمازِجنازہ پڑھا نے سے انکار کیا، وہ نادانستہ مجرموں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اگر وہ کوئی عالمِ دین ہیں تو انہیں دین کا علم دوسروں سے زیادہ ہونا چاہئے، اور ان پر ذمہ داری بھی زیادہ عائد ہوتی ہے۔
دوسری طرف ایک اور انتہاپسند طبقہ ہے۔ اس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے، جسے آگے بڑھانے کے لئے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ انہیں، آزادیٔ اظہار کے نام پر، مادر پدر آزادی چاہئے۔ ان کے لئے آج کل جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے وہ خاصی درست لگتی ہے، لبرل فاشسٹ۔ اپنی بے لگام آزادی کا مطالبہ کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی چھڑی گھمانے کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کسی کی ناک شروع ہوتی ہے۔ یہ طبقہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے، اور جونہی اس طرح کا کوئی افسوسناک واقعہ ہوتا ہے وہ لٹھ لے کر توہینِ رسالت کے قانون کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو، جو اکثر دلائل سے عاری ہوتی ہے، اس قانون کے خاتمے کے مطالبے پر ٹوٹتی ہے۔ ان کے پاس وہ اعداد و شمار ہوتے ہیں کہ کس برس تک صرف اتنے مقدمات بنے تھے، اور توہین کے اتنے واقعات ہوئے تھے، اورجب سے یہ قانون بنا ہے ان میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے۔
مردان یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا، اس کا سارا الزام انہوں نے توہینِ رسالت کے قانون پر ڈال دیا۔ یہ قانون ختم ہونا چاہئے، یا اس میں ترمیم کرنا چاہئے، جو ظاہر ہے ان کے اپنے خیالات کے مطابق ہو گی تو انہیں منظور ہوگی ورنہ وہ اُس میں بھی کیڑے ڈالتے رہیں گے اور نکالتے رہیں گے۔ مردان کے واقعہ کو ہی لیں تو اس میں توہینِ رسالت کے قانون کا کیا قصور ہے؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ یہاں تو اس قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس کا استعمال ہی نہیں ہوا، غلط یا صحیح کا معاملہ تو الگ ہے۔ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک ہجوم کسی شخص پر الزام لگا کر اُسے سزا بھی دے سکتا ہے؟ آپ ایسی کونسی ترمیم اس قانون میں لا سکتے ہیں جس سے مردان کی طرح کی سازشیں نہ ہوں؟ اگر آپ کے پاس ایسا کوئی حل ہے تو اسے پیش کریں، یا پھر کھل کر کہیں کہ آپ کو توہینِ رسالت کی اجازت دے دی جائے۔ اُس غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرنے کے لئے آپ کو آزاد چھوڑ دیا جائے جس کا مقصد مسلمانوں کے دل و دماغ سے رسولِ اکرمﷺ کا احترام ختم کرنا ہے، کیونکہ اس طرح اسلام سے ان کی وابستگی بس برائے نام ہی رہ جائے گی، اور وہ دشمنان اسلام کے لئے ایک لقمۂ تر بن جائیں گے۔
مشال کا قتل، ایک المناک واقعہ ہے۔ ایک جوان بیٹے سے اس کے والدین نے بہت سی امیدیں باندھی ہوں گی، سب ہی باندھتے ہیں۔وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنتا۔ مگر وہ ایک سازش کا شکار ہو گیا۔ اس قابل ِ مذمت واقعہ کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی کہ اسے توہین رسالت کے قانون سے منسلک کردیا گیا، اور یوں ذرائع ابلاغ پر اس کی تشہیر بہت ہوئی۔ بحث مبا حثہ بھی بہت ہوا، اور ہو رہا ہے۔ مگر کتنے لوگوں نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں دیانتداری سے پوری کیں؟ جن لوگوں نے کچھ تحقیقات کی ان کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ جامعہ ہے کس کی؟ کیا یہ کوئی سرکاری ادارہ ہے یا نجی؟ اگر یہ سرکاری ادارہ ہے تو فیس 25,000روپے کیوں ہے؟ ایک آدھ کے سوا کسی نے یہ پتہ کرنے کی کوشش نہیں کی اس جامعہ کے وائس چانسلر 20مارچ سے کیوں غائب ہیں؟ کیاا نہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے؟ یا ان کے خلاف نیب میں کوئی تحقیقات ہو رہی ہے؟ مشال جن معاملات کی نشاندہی کرتا رہا اُن میں کتنی صداقت ہے؟ اس کی شکایت یہ تھی کہ جامعہ کے انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔
یہ معاملات کیا ہیں؟ کسی نے پتہ نہیں کیا۔ کیا یہ درست ہے کہ مردان کی اس جامعہ میں میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں کی گئی تھیں؟ کیا یہ درست ہے کہ جرنلزم کے شعبہ کے سربراہ کا تقرر بھی غلط ہوا ہے؟ وہ پی ایچ ڈی نہیں ہیں تو انہیں اس شعبہ کا سربراہ کیسے بنایا گیا؟ اور اب جو وڈیو سامنے آئی ہے اس میں جو صاحب مبارک باد یاں دے رہے ہیں، انکا تعلق تحریکِ انصاف سے ہے۔ کیا وہ اس جامعہ کے طالب علم ہیں؟ اگر نہیں تو وہ وہاں کیا کررہے تھے؟ آج ہماری صحافت کاتا اور لے دوڑی سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟ دنیا میں، اور پاکستان میں بھی، ایسا کونسا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ کیا آپ کوئی ایک بھی ایسے قانون کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 302میں قاتل کو موت تک کی سزا متعین کی گئی ہے۔ کیا اس سے قتل رک گئے؟ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، روز ہی اسطرح کی خبر یں نظر آجائیں گی کہ باپ نے بیٹی کو قتل کردیا، بھائی نے بھائی کو قتل کردیا، یا کچھ لوگوں کو کسی سازش کے تحت قتل کروا دیا گیا۔ تو اس قانون کا کیا کِیا جائے؟ ختم کردیں، آپ کے اپنے معیار کے مطابق تو یہی ہونا چاہئے۔ تو پھر معاشرہ میں امن اور چین ہو جائے گا؟ کوئی کسی کو قتل نہیں کریگا؟ یہ سوچ کا درست رویہ نہیں ہے۔ انتہا پسندی ختم ہونی چاہئے، اِدھر سے بھی اور اُدھر سے بھی۔ جو کوئی بھی کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے اسے کیفرِکردار تک پہنچانا چاہئے۔ اگر آپ توہین کے قانون کو ختم کروا بھی لیں تو بھی اسطرح کی سازشیں ہوتی رہیں گی، کہ اسکی وجہ معاشرے کا بگاڑ ہے، کسی قانون کی خامیاں نہیں، اگر اُس میں کچھ خامیاں ہیں تو۔

.
تازہ ترین